اے مصور جو مری تصویر کھینچ

حسرت آگیں غمزدہ دلگیر کھینچ

جذب بھی کچھ اے تصور چاہئے

خود کھنچے جس شوخ کی تصویر کھینچ

اے محبت داغ دل مرجھا نہ جائیں

عطر ان پھولوں کا بے تاخیر کھینچ

آ بتوں میں دیکھ زاہد شان حق

دیر میں چل نعرۂ تکبیر کھینچ

ایک ساغر پی کے بوڑھا ہو جوان

وہ شراب اے مے کدہ کے پیر کھینچ

دل نہ اس بت کا دکھے کہتا ہے عشق

کھینچ جو نالہ وہ بے تاثیر کھینچ

دل ادھر بیتاب ہے ترکش ادھر

کھینچتا ہوں آہ میں تو تیر کھینچ

کچھ تو کام آ ہجر میں او اضطراب

شوخیٔ محبوب کی تصویر کھینچ

قیس سے دشت جنوں میں کہہ جلالؔ

آگے آگے چل مرے زنجیر کھینچ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]