باشندے حقیقت میں ہیں ہم ملک بقا کے

کچھ روز سے میہمان ہیں اس دار فنا کے

دل خوں ہو شب وصل بھی حسرت میں نہ کیوں کر

دیکھیں نہ وہ خلوت میں بھی جب آنکھ اٹھا کے

فرمائیے ہم سے تھی یہی شرط محبت

خوب آپ نے رسوا کیا غیروں میں بلا کے

کوچے میں نہ آئے کوئی میں جان گیا ہوں

فرماتے ہو مجھ سے یہ رقیبوں کو سنا کے

دل ہاتھ سے کھو جاتا ہے کس طور سے زاہد

تو آپ ذرا دیکھ لے اس کوچے میں جا کے

خاک در جاناں ہے لباس تن عریاں

عاشق ترے محتاج نہیں اور قبا کے

ہم سر کے بل آئیں گے جو بلواؤ گے صاحب

گر ہو نہ یقیں دیکھ لو تم چاہو بلا کے

ہو سایۂ دیوار تمہارا جو میسر

پھر کیا کریں فرمائیے سائے کو ہما کے

دل کھول کے کر لیجئے اے حضرت دل سیر

ہم پھر کے نہ پھر آئیں گے اس بزم سے جا کے

تن خاک میں مل جائے گا اک روز ہمارا

جی تن سے نکل جائے گا مانند ہوا کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]