بوئے طیبہ جو سونگھتی ہو گی
خلد کی روح جھومتی ہو گی
ان کی تابش کو چوم لے بڑھ کر
دور سے برق سوچتی ہو گی
ریگ طیبہ سے روشنی کے لیے
چاندنی ہاتھ جوڑتی ہو گی
ان کھجوروں کی ڈالیاں چھو کر
باد رحمت بھی جھومتی ہو گی
کتنی خوش بخت ہوگی ارض حرم
ان کے قدموں کو چومتی ہو گی
فخر اعمال حشر میں بیکار
ہر نظر ان کو ڈھونڈھتی ہو گی
ہوں تو عاصی عزیز وہ ہیں مرے
مجھ سے جنت کو دوستی ہو گی