بے جھجھک ہر بامِ رفعت چوم آئے بوالعلی

ہر بلندی پر ملیں گے نقشِ پائے بوالعلی

کس لیے میں غم کروں کس بات کی مجھ کو ہے فکر

ہر گھڑی مجھ پر ہے وا باب عطائے بوالعلی

چاند کی اٹکھیلیوں کو دیکھ کر ایسا لگا

سیکھ لی ہے اس نے بھی طرز ادائے بوالعلیٰ

آگئے جس کے قدم ، جاتا نہیں ہے لوٹ کر

خوبصورت ہے بہت مدحت سرائے بوالعلی

وہ گئے اجمیر تو ہم کیوں نہ جائیں بار بار

ہم فقیرِ بوالعلی ہیں ، ہم گدائے بوالعلی

سیدی نواب کے چہرے کو دیکھو غور سے

حسنِ سرکارِ حسن ہے اور ضیائے بوالعلی

فکر میری اور مرا وجدان اکثر اے مجیبؔ

شاخ مدحت پر کھلائیں گل برائے بوالعلی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]