بے سبب کب کسی سے ملتا ہے

خود غرض کام ہی سے ملتا ہے

دردِ سر ، سر بسر ہے آقائی

کیفِ دل بندگی سے ملتا ہے

دین و دنیا میں ہر بلند مقام

بس تری پیروی سے ملتا ہے

سلسلہ ظاہری ہے یہ جتنا

پردۂ غیب ہی سے ملتا ہے

دل کو کیفِ تمام و سوزِ مدام

جذبۂ عاشقی سے ملتا ہے

ہے تکبر متاعِ رسوائی

مرتبہ عاجزی سے ملتا ہے

جو بھی ہے اس نظرؔ کا گرویدہ

دل مرا بس اسی سے ملتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]