تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے
جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے
روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے
وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے
اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی
تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے
چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در
یہ ایک خواب ہے جو مری چشمِ تر میں ہے
دربارِ مصطفی سے مجھے اذن تو ملے
پرواز کی رسائی مرے بال و پَر میں ہے
جب سے مدینے جانے کی دل میں کسک ہوئی
تب سے یہ میری سوچ مسلسل سفر میں ہے
بن جائے گی وسیلہ یہ میری نجات کا
شامل جو نعت آپؐ کی میرے ہُنر میں ہے
فن کو شعورِ نعت ملا جب سے مرتضیٰ
اِک روشنی سی زندگی کی رہگزر میں ہے