ترا بندہ ہے تیرا ڈر رکھنے والا
کہ ہے سب پہ تو ہی اثر رکھنے والا
تو خالق ، تو رازق ، تو مالک ، تو حاکم
تو خلقت پہ اپنی نظر رکھنے والا
زمیں سے فلک تک تری حکمرانی
تو ارض و سما کی خبر رکھنے والا
تو ہی گردشِ وقت پر بھی ہے غالب
تو دنیا کی شام و سحر رکھنے والا
نکھارا ہر اک گل کو رنگ اور بو سے
شجر میں بھی تو ہی ثمر رکھنے والا
دیا نور ننھے سے جگنو کو تو نے
تو برق و حجر میں شر ر رکھنے والا
زمیں کی تہوں میں خزینے ہیں تیرے
تو ہی سیپ میں بھی گہر رکھنے والا
دی قوت ہواؤں کو تو نے کہ تو ہے
ہر اک بادباں پر نظر رکھنے والا
یقیناً تو صحرا کو گلزار کر دے
تو ہی یہ صفت ، یہ ہنر رکھنے والا
بکھر جائے پل بھر میں ہر شے جہاں کی
تو ہی سب کو شیر و شکر رکھنے والا
ثنا میں ہے مصروف تیری الٰہی !
فراغؔ آج ہے چشمِ تر رکھنے والا