تیرا ہی ہرطرف یہ تماشا ہے اے کریم

جو بھی یہاں پہ ہے تیرا بندہ ہے اے کریم

تیرے ہی لطف سے ہے یہ راحت بھی عیش بھی

دُنیا ترے کرم ہی سے دُنیا ہے اے کریم

یہ مرگ، یہ حیات، یہ غم، یہ خوشی، یہ کیف

ادنیٰ سا سب یہ تیرا کرشمہ ہے اے کریم

عزّت بھی تیرے ہاتھ ہے، ذلّت بھی تیرے ہاتھ

جو چاہتا ہے جس کو تو دیتا ہے اے کریم

بہزاد پہ بھی اک نگہء مہر ہو ذرا

بہزاد بھی تو اک ترا بندہ ہے اے کریم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]