تیغ نگہ دیدۂ خوں خار نکالی

کیوں آپ نے عشاق پہ تلوار نکالی

بھولے ہیں غزالان حرم راہ خطا سے

تم نے عجب انداز کی رفتار نکالی

دھڑکا مرے نالہ کا رہا مرغ سحر کو

آواز شب وصل نہ زنہار نکالی

ہر گھر میں کہے رکھتے ہیں کہرام پڑے گا

گر لاش ہماری سر بازار نکالی

آخر مری تربت سے اگی ہے گل نرگس

کیا باد فنا حسرت دیدار نکالی

میں وصل کا سائل ہوں نہ وعدے کا طلبگار

باتوں میں عبث آپ نے تکرار نکالی

جل جائے گا یہ خرمن ہستی ابھی اے دل

سینے سے اگر آہ شرربار نکالی

دل لے کے بھی رعناؔ کا کیا پاس نہ افسوس

کچھ حسرت دل تو نے نہ عیار نکالی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]