جذبۂ الفت شہہِ خیراُلامم ﷺ کی نذر ہے
میری مدحت آپؐ کی چشمِ کرم کی نذر ہے
آج پھر احساسِ دوری بڑھ رہا ہے دم بدم
آج پھر رودادِ غم لوح و قلم کی نذر ہے
کاش میں دربارِ سرور ﷺ میں پہنچ کر کہہ سکوں
زندگی کی ناؤ اب بحرِ عدم کی نذر ہے
میرے سجدوں کے لیے اک سمت ہے کعبہ مگر
عزمِ طاعت صرف شاہِ ذوالکرم ﷺ کی نذر ہے
ہجرِ طیبہ میں جو مُرجھایا تو دل کہنے لگا
اب مرا احساس بس اک چشمِ نم کی نذر ہے
آ رہی ہے جب اُمیدوں کی بھی طیبہ سے کرن
دل عزیزؔ احسن یہ پھر کیوں صرف غم کی نذر ہے ؟