جذبۂ الفت شہہِ خیراُلامم ﷺ کی نذر ہے

میری مدحت آپؐ کی چشمِ کرم کی نذر ہے

آج پھر احساسِ دوری بڑھ رہا ہے دم بدم

آج پھر رودادِ غم لوح و قلم کی نذر ہے

کاش میں دربارِ سرور ﷺ میں پہنچ کر کہہ سکوں

زندگی کی ناؤ اب بحرِ عدم کی نذر ہے

میرے سجدوں کے لیے اک سمت ہے کعبہ مگر

عزمِ طاعت صرف شاہِ ذوالکرم ﷺ کی نذر ہے

ہجرِ طیبہ میں جو مُرجھایا تو دل کہنے لگا

اب مرا احساس بس اک چشمِ نم کی نذر ہے

آ رہی ہے جب اُمیدوں کی بھی طیبہ سے کرن

دل عزیزؔ احسن یہ پھر کیوں صرف غم کی نذر ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]