خوشیاں کہاں نصیب ہیں غم دل میں بس رہے

جیتے ہوئے بھی جینے کو ہم تو ترس رہے

گلشن میں ہم رہے کہ میانِ قفس رہے

آزردہ قلب و شعلہ بجاں ہر نفس رہے

جب زندگی پہ موت کا ہونے لگے گماں

ایسے میں زندگی کی بھلا کیا ہوس رہے

دریا کے پار اتر گئے تھا جن میں حوصلہ

مُنہ دیکھتے رہے وہ جنھیں پیش و پس رہے

پھوٹا ہے رنگِ لالۂ داغِ جگر سے وہ

شرمندۂ بہار نہ اب کے برس رہے

گلشن میں خوفِ صاعقہ و برق آئے دن

اس سے بھلے تو ہم بحدودِ قفس رہے

وہ آدمی نہیں ہے خدا کی قسم نہیں

دنیا میں پھنس کے جس کو نہ کچھ دیں سے مَس رہے

اپنے چمن میں پھول کہاں نکہتیں کہاں

اب تو یہ آ رہا ہے نظرؔ خار و خس رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]