خُداوندِ مکان و لا مکاں ہے

خُداوندِ زمین و آسماں ہے

خُداوندِ جہاں، رازِ نہاں ہے

حبیبِ کبریا، بس راز داں ہے

یہاں ہر چیز فانی، آنی جانی

خُدا کی ذات قائم، جاوداں ہے

فضا و بحر و بر، ابر رواں میں

خُدا کا ذِکر جاری ہے، عیاں ہے

خُدا کے ذِکر سے سانسیں رواں ہیں

خُدا کی یاد سے ہی جاں میں جاں ہے

خُدا کی عظمتوں کا مُعترف میں

مرا سوزِ درُوں، قلبِ تپاں ہے

ظفرؔ یاں سر خمیدہ، دم کشیدہ

یہ بیت اللہ، عظمت کا جہاں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]