دعا کو بھیک مل جائے اثر کی
ملے توفیق طیبہ کے سفر کی
شعورِ پیرویِ مصطفی دے
مرے اللہ ! سُن لے چشمِ تر کی
وہی اُسوہ رہے پیہم نظر میں
کہ جس پر ہے بِنا اُجلی سحر کی
ضرورت ہے مری تاریکیوں کو
ابو القاسم کی سیرت کے قمر کی
گزرنا ہے جہانِ آب و گل سے
الٰہی! خیر ہو میرے سفر کی
رسولِ ہاشمی کا کوئی پیرو
کبھی صورت نہیں دیکھے سقر کی
دعائیں مانگ لی ہیں میں نے ساری
الٰہی! اب ضرورت ہے اثر کی
عزیزؔ احسن کرم کا ملتجی ہے
عطا کر حاضری پھر اپنے در کی