دل نے امیدیں عبث پالی ہوئی ہیں

یہ شبیں تو اور بھی کالی ہوئی ہیں

جھانکتی ہیں دن کی خوشیاں کھڑکیوں سے

ہم نے ساری رات پر ٹالی ہوئی ہیں

نغمہء کہنہ میں اے حیران سامع

میں نے کچھ تانیں نئی ڈالی ہوئی ہیں

بھولی بھالی خواہشوں کی فاختائیں

سب اسیرِ بے پر و بالی ہوئی ہیں

آرزوئیں آنکھ سے بہتی ہیں کیسے

دل کے سانچے میں اگر ڈھالی ہوئی ہیں

اے مرے خامے سفر کو تیز کر اب

مسندیں احساس کی خالی ہوئی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]