دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے

درود پڑھتے ہی یہ کیسی روشنی ہوئی ہے

میں بس یونہی تو نہیں آگیا ہوں محفل میں

کہیں سے اذن ملا ہے تو حاضری ہوئی ہے

جہانِ کن سے ادھر کیا تھا، کون جانتا ہے

مگر وہ نور کہ جس سے یہ زندگی ہوئی ہے

ہزار شکر غلامانِ شاہِ بطحا میں

شروع دن سے مری حاضری لگی ہوئی ہے

بہم تھے دامنِ رحمت سے جب تو چین سے تھے

جدا ہوئے ہیں تو اب جان پر بنی ہوئی ہے

سر اٹھائے جو میں جارہا ہوں جانبِ خلد

مرے لئے مرے آقا نے بات کی ہوئی ہے

مجھے یقیں ہے وہ آئیں گے وقتِ آخر بھی

میں کہہ سکوں گا زیارت ابھی ابھی ہوئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]