دل پر مرے احساس نے جو حرف لکھا ہے

ہے تیرے سوا کون کہ جس نے وہ پڑھا ہے

تصویر تری کثرتِ جلوہ سے ہے معدوم

آئینۂ حیرت ہے کہ آغوش کشا ہے

ہر آنکھ ہے رنگوں کی فراوانی سے خیرہ

وحدت کا تری بھید کھلا تھا نہ کھلا ہے

تو نے ہی تو ہر مرحلۂ شوق میں یارَبّ!

اِس چشمِ تماشا کو نیا عزم دیا ہے

جو تو نہیں چاہے وہ کبھی ہو نہیں سکتا

ہر کام فقط تیرے ارادے سے ہوا ہے

ہر جاں کو تسلی کہ حفاظت میں ہے تیری

ہر زخم تری چشمِ عنایت سے بھرا ہے

ایماں ترے ہونے کا، مری جاں کا اثاثہ

ایقان ترے قُرب کا اس دل کی جِلا ہے

تو نے ہی مجھے نُطق کی دولت سے نوازا

تو نے مرے احساس کو اظہار دیا ہے

احسنؔ پہ عنایات کے دَر باز ہوں یاربّ

یہ دشتِ تحیّر میں تجھے ڈھونڈ رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]