اردوئے معلیٰ

Search

دل کی دہلیز پر قدم رکھا

اُس نے کتنا مِرا بھرم رکھا

 

اِک دُعائے شکستہ حرف کو بھی

اُس کی بخشش نے محتشم رکھا

 

پاسِ آدابِ دید تھا واللہ

آنکھ پتھر تھی، دل کو نم رکھا

 

خود خطاؤں نے آنکھ جھپکا دی

اُس نے پیہم مگر کرم رکھا

 

سوچتا ہوں مدینہ بستی میں

رب نے کیا کیا نہیں بہم رکھا

 

رُخ کو رکھا بہ روئے کعبہ، مگر

دل کو سُوئے مدینہ خَم رکھا

 

ماسوا کچھ نہ تھا سخن مقصودؔ

نعت تھی ، نعت کو رقم رکھا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ