دہر میں کون ہمیں تیرے سوا جانتا ہے

تو بھی افسوس نہیں جانتا کیا جانتا ہے

ہم نے وہ بوجھ اٹھائے ہیں کہ اٹھنے کے نہ تھے

عمر جس طور سے کاٹی ہے خدا جانتا ہے

تیرے بے کس نے سنا ہے جو کہا ہے تو نے

اور وہ بھی جو کہا جا نہ سکا جانتا ہے

جانتا ہے دلِ کم بخت کہ اب ٹوٹنا ہے

دل کہ اس کھیل کا عادی جو ہوا، جانتا ہے

مضمحل وقتِ سحر لو نہیں یونہی ناصر

رات پھر لوٹ کے آنی ہے دیا جانتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]