رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے

سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے

جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کیں

یار طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے

پاؤں کمر تک دھنس جاتے ہیں دھرتی میں

ہاتھ پسارے جب خودداری رہتی ہے

وہ منزل پر اکثر دیر سے پہنچے ہیں

جن لوگوں کے پاس سواری رہتی ہے

چھت سے اس کی دھوپ کے نیزے آتے ہیں

جب آنگن میں چھاؤں ہماری رہتی ہے

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا

گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]