رب کا یہ اِنعام ہے صد آفریں
فیض اُن کا عام ہے صد آفریں
وِرد ہے لب پر نبی کے نام کا
رُوح کو آرام ہے صد آفریں
سبز گُنبد کی بہاریں دیکھ کر
شاد ہر ناکام ہے صد آفریں
وصل کی شب عرش پر محبوب کا
خوب اُونچا نام ہے صد آفریں
ساقیء کوثر کی رحمت جوش پر
پیش سب کو جام ہے صد آفریں
اُن کا دیوانہ عذابوں سے بری
اور خوش انجام ہے صد آفریں
بِک گیا جو بھی نبی کے نام پر
اُس کا اُونچا دام ہے صد آفریں
جس کو رب نے رحمتِ عالم کہا
اُس کی رحمت عام ہے صد آفریں
نعت کے باعث رضاؔ کا دوستو!
ہر جگہ اِکرام ہے صد آفریں