رب کا یہ اِنعام ہے صد آفریں

فیض اُن کا عام ہے صد آفریں

وِرد ہے لب پر نبی کے نام کا

رُوح کو آرام ہے صد آفریں

سبز گُنبد کی بہاریں دیکھ کر

شاد ہر ناکام ہے صد آفریں

وصل کی شب عرش پر محبوب کا

خوب اُونچا نام ہے صد آفریں

ساقیء کوثر کی رحمت جوش پر

پیش سب کو جام ہے صد آفریں

اُن کا دیوانہ عذابوں سے بری

اور خوش انجام ہے صد آفریں

بِک گیا جو بھی نبی کے نام پر

اُس کا اُونچا دام ہے صد آفریں

جس کو رب نے رحمتِ عالم کہا

اُس کی رحمت عام ہے صد آفریں

نعت کے باعث رضاؔ کا دوستو!

ہر جگہ اِکرام ہے صد آفریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]