رنج و آلام جب ستائیں گے
ہم درِ مصطفی پہ جائیں گے
اُن کے درِ پر جبیں جھُکائیں گے
زندگی بھر نہیں اُٹھائیں گے
تکتے جائیں گے گنبدِ خضریٰ
پیاس نظروں کی ہم بجھائیں گے
آپ کے نقشِ پا کی خاکِ شفا
شہرِ طیبہ سے لے کے آئیں گے
ساری دُنیا کے عالم و فاضل
آپ کے در سے نُطق پائیں گے
آپ کی سیرتِ مُنوّر کو
مشعلِ راہ ہم بنائیں گے
جب ظفرؔ خواب میں حضور آئے
بخت سوئے مرے جگائیں گے