رکھ کے خواہش نئے معانی کی

شاعری ہم نے آسمانی کی

نئے مصرعے بنا لیے تم نے

بات لیکن وہی پرانی کی

ورنہ دریا بھی دشت جیسا ہے

بات ہوتی ہے بس روانی کی

ورنہ یہ دل کہاں بہلنا تھا

یہ تو سانسوں نے مہربانی کی

ٹھیک سے ہاتھ بھی ملایا نہیں

تم نے کیا خاک میزبانی کی

کیا کہوں، کچھ ضعیف سے جذبے

آگ بھڑکا گئے جوانی کی

باغ سے پھول جھڑ گئے سارے

رہ گئی دھول رائیگانی کی

میں حقیقت میں کھو گیا قیصرؔ

بات کرتے ہوئے کہانی کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]