شہرِ بے رنگ میں کب تجھ سا نرالا کوئی ہے

تُجھ کو دیکھوں تو لگے عالمِ بالا کوئی ہے

کبھی گُل ہے ، کبھی خوشبو، کبھی سورج ، کبھی چاند

حُسنِ جاناں! ترا اپنا بھی حوالہ کوئی ہے ؟

ہاتھ رکھ دل پہ مرے اور قسم کھا کے بتا

کیا مِری طرح تجھے چاہنے والا کوئی ہے ؟

رونا آتا ہے تو یُوں تیری طرف دوڑتا ہوں

جیسے تجھ پاس مِرے غم کا ازالہ کوئی ہے

آخرِ شب کا سماں ، قریۂ ہجر ، ایک صدا

کوئی ہے ؟ میرے لیے جاگنے والا کوئی ہے؟

ٹیس اُٹھتی ہے عجب جونہی قدم اُٹھتے ہیں

پاؤں میں ہو کہ نہ ہو ، رُوح میں چھالا کوئی ہے

بے سبب تو نہیں لفظوں میں یہ وحشت فارس

ہو نہ ہو آپ کی غزلوں میں غزالہ کوئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]