عرفان نقشِ ذات کا، قُدسی صفات کا

لائے وہ اپنے ساتھ، صحیفہ حیات کا

آمد نے تیری بخشے ہیں تخلیق کے شرَف

انسان تو غُلام تھا لات و منات کا

طاعت ہی تیری مژدئہ فوزِ مدام ہے

رکھا گیا ہے مان تری بات بات کا

ہوتی نہیں ہے نعت ترے اذن کے بغیر

محتاج ہے خیال ترے التفات کا

تیرا ہی ذِکرِ نُور سکینت کی ہے گھڑی

تیرا ہی اسمِ پاک سبب ہے ثبات کا

ثمرہ ہے تیرے فیض کا دستِ نمود میں

والی ہے تُو یقین کا اور ممکنات کا

صبحِ ازل سے شامِ ابد کے طلوع تک

اظہارِ گونا گوں ہے ترے معجزات کا

چشمے بہے ہیں خیر کے انگشتِ نُور سے

توڑا ہے تُو نے ہاتھ سبھی منکرات کا

پڑھتا ہُوں مَیں درود برائے امانِ کُل

واللہ! یہ وظیفہ ہے سب مشکلات کا

مقصودؔ میری خَلق میں نسبت ہے ربط کی

ذرّہ ہُوں مَیں، مدینے کے ہی شاملات کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]