اردوئے معلیٰ

Search

آج مفسر قرآن شارح صحیحین علامہ غلام رسول سعیدی کا یوم پیدائش ہے۔

غلام رسول سعیدی(پیدائش: 14 نومبر 1937ء – وفات: 4 فروری 2016ء)
——
علامہ غلام رسول سعیدی اہل سنت و جماعت کے نمائندہ عالم دین اور ایک عظیم محقق تھے۔ آپ کراچی پاکستان کے رہنے والے تھے۔ ایک بڑے مشہور مدرسے کے شیخ الحدیث تھے۔ آپ کی دو کتابیں اپنی مثال آپ ہیں:
شرح صحیح مسلم
پہلی کتاب شرح صحیح مسلم (غلام رسول سعیدی) میں آپ نے(قرآن شریف اور صحیح البخاری کے بعد) کائنات کی تیسری سب سے افضل کتاب صحیح مسلم کی ایسی جامع شرح کی ہے، جو آپ سے پہلے اور امام نووی کے بعد اس پوری مدت میں کسی دوسرے کی نظر نہیں آتی۔ اردو زبان میں بلا شبہ اس شرح کا بہت اعلی مقام ہے۔ یہ واحد وہ شرح ہے جو اردو ہوتے ہوئے عربی کا مکمل لطف بھی دیتی ہے اور مواد بھی۔ انداز بیان علمی اور تحقیقی ہے اور بلاشبہ آپ نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ آپ کی یہ شرح سات جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر ہر جلد ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : غلام رسول سعیدی کا یوم وفات
——
تبیان القرآن
دوسری کتاب تبیان القرآن ہے، جو بالکل شرح مسلم کے انداز پر قرآن مجید کی جامع تفسیر ہے۔
نعمۃ الباری شرح صحیح بخاری
علامہ غلام رسول سعیدی کی کتاب نعمۃ الباری جو صحیح بخاری کی شرح ہے اس کی بھی تقریبا 14جلدیں طبع ہو چکی ہیں ،یہ شرح بھی اردو میں بخاری شریف کی بے مثل شرح ہے ،اب نے اس میں چاروں فقہی مذاہب ،حنفی ،مالکی ،شافعی ،حنبلی کو بیان کیا ہے ،شرح کی عبارت آسان ہے ،جس کی وجہ سے یہ عوام و خواص میں مقبول ہے
مقالات سعیدی
اس کتاب میں آپ نے اپنے لکھے ہوئے مضامین کو جمع کیا ہے، اس میں بھی آپ کے الفاظ نہایت آسان ہیں ۔
جامع نعیمیہ کراچی کے شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی 79 برس کی عمر میں مورخہ 4 فروری 2016ء انتقال کر گئے،علامہ سعیدی کی تدفین جامع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں کی گئی ۔
——
محدث کبیر علامہ غلام رسول سعیدی ، صدائے تکبیر از پروفیسر مسود اختر ہزاروی
——
جمعرات چار فروری 2016کو دور حاضر کے معروف عالم دین، عظم محدث اور مفسر قرآن علامہ غلام رسول سعیدی کراچی کے ایک ہسپتال میں رحلت فرماگئے۔ حضرت کی موت کی خبر سے دینی و علمی حلقوں میں رنج و الم کی فضاء چھا گئی۔ عربی کا ایک مقولہ ہے ’’موتُ العالِم موتُ العالَم‘‘ کہ ایک عالم دین کی موت حقیقت میں ایک جہان کی موت ہوتی ہے۔ تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ہر آنے والا جانے والے جگہ تو لے لیتا ہے لیکن اس جیسے کمالات نہیں رکھتا۔ بقول اقبالؒ
——
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
——
آپ 10رمضان المبارک 1356 ہجری بمطابق 14 نومبر 1937 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ قیام پاکستان کے وقت دس سام کی عمر میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور کراچی میں قیام کیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ ایک عابدہ ،زاہدہ اور تہجد گزار خاتون تھیں۔ ابتدائی دینی علم اور قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم اپنی والدہ سے ہی حاصل کی۔اس دوران آپ کے والد انتقال فرما گئے اور بعد ازاں آ پ کی والدہ نے دوسری شادی کرلی۔ گھریلو حالات کی تنگدستی کی وجہ سے بارہ سال کی عمر میں آپکو تعلیم چھوڑنی پڑی اور محنت مزدوری کرنے لگے۔ لڑکپن کی عمر میں کراچی کے گلی کوچوں میں آئس کریم بیچنے کا کام شروع کیا۔ پھر ایک پرنٹنگ پریس میں کام سیکھا اور وہیں ملازمت اختیار کرلی۔آپ کی عمر انہیں حوادثات زمانہ سے گزرتے گزرتے اکیس سال ہوگئی۔ آپ پریس کے مالک سے جمعہ المبارک کے دن اجازت لیکر نماز کی ادائیگی کیلئے آرام باغ کی مقامی مسجد میں جاتے۔ وہاں جمعہ کے بعد درود و سلام کی صدائیں بلند ہوتیں تو آپ کے قلب و جگر میں ہل چل مچ جاتی۔حالات کی ستم ظریفی اپنی جگہ مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آپ کے دل میں دینی ذوق پیدا ہوا تو مطالعہ قرآن شروع کردیا۔ایک دن ایک اشتہار پر نظر پڑی جس میں لکھا تھا کہ رحیم یا خان کے مدرسہ ’’جامعہ محمودیہ رضویہ میں بلا معاوضہ علم دین حاصل کریں‘‘۔
——
یہ بھی پڑھیں : ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
——
اس طرح کراچی کو خیر آباد کہ کر رحیم یار خان کے اس دینی مدرسہ میں داخلہ لے لیا۔ اس دور میں اس ادارہ کے منتظم اعلی حضرت علامہ محمد نواز اویسی تھے۔ انہوں نے اس طالب علم کی آنکھوں میں حصول علم کی چمک دیکھی تو انھیں ایک انتہائی قابل اور شفیق استاد علامہ عبدالمجید اویسی کے حوالے کردیا۔ ان سے صرف و نحو اور ادب و فقہ کی ا بتدائی کتب پڑھنے کے بعد لاہور آگئے اور جامعہ نعیمیہ (گڑھی شاہو) لاہور میں داخل ہوگئے۔ جہاں انہوں نے مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اور مفتی عزیز احمد بد ایونی رحمۃ اللہ علیہ سے بھرپور اکتساب فیض کیا۔ تفسیر، حدیث ، فقہ ،منطق اور حکمت کی کتب پڑھنے کے بعد بھی آپکی علمی تشنگی ابھی باقی تھی اور ہمہ وقت خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے تھے۔ اسی دوران آپ مزید حصول علم کیلئے اس دور کے علوم و فنون کے معروف عالم دین اور محقق حضرت علامہ عطا محمد بندیالوی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ گئے۔ منطق اور فلسفہ کی بڑی بڑی کتب آپ نے ان کے پاس پڑھیں ۔ ان کے علاوہ جامعہ قادریہ فیصل آباد کے استاد مولانا ولی النبی اور مختار الحق بھی آپ کے اساتذہ کرام تھے۔ حضرت علامہ غلام رسول سعیدی کو اللہ تعالی نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور آپ نے وہ تمام تر صلاحیتیں دین متین کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی تھیں۔ علم حدیث اور علم تفسیر میں آپ درجہ کمال پر فائض تھے۔ آپ عالم اسلام کے وہ روشن چراغ ہیں جن کے علمی فیوض و برکات سے بیشمار لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔ آپ اپنی ذات میں ایک مفتی، محدث، مفسر، فقیہ اور کئی ایک کتب کے مصنف ہیں۔ 1986 میں صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنا شروع کی اور1994 میں سات جلدوں میں اسے مکمل کیا۔ اس کتاب کے آٹھ ہزار صفحات ہیں اور اس کے ابھی تک انیس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آپ ؒنے قرآن پاک کی تفسیر ’’تبیان القرآن‘‘ لکھی۔ 1994 میں اس تفسیر کے لکھنے کا آغاز کیا اور 2006 میں بارہ ضخیم جلدوں میں اسے مکمل کیا۔آ پ ؒنے 2006 اور 2014 کے دوران بخاری شریف کی شرح سولہ جلدوں میں مکمل کی۔ پہلی سات جلدیں’’ نعمۃ الباری شرح صحیح بخاری‘‘ کے نام سے جبکہ بعد کی نو جلدیں ’’نعم الباری شرح صحیح بخاری‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں ۔ اس طرح یہ کتاب سولہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں توضیح البیان، تذکرۃ المحدثین، مقالات سعیدی، مقام ولایت و نبوت،اعلی حضرت کا فقہی مقام، ذکر بالجہر، حیات استاذالعلماء، ضیائے کنزالایمان، معاشرے کے ناسور اورشان الوہیت بھی آپ کی مشہور و معروف تصانیف ہیں۔ ابھی آپ قرآن پاک کی ایک اور تفسیر ’’تبیان الفرقان‘‘ کے نام سے قدرے مختلف ذوق علمی سے لکھ رہے تھے۔ ابھی وہ نامکمل ہی تھی کہ زندگی نے وفا نہ کی اور آپ داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : حمیرا جمیل کا یومِ پیدائش
——
آپکی ان تمام علمی و تحقیقی کاشوں کے پس پردہ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی پاکستان مفتی محمد منیب الرحمان کا قابل صد تحسین کردار ہے ۔انہوں نے علامہ سعیدی صاحب کوبتیس سال اپنے ادارے ’’جامعہ نعیمیہ کراچی‘‘ میں ہر مالی و اخلاقی سہولت مہیا کی جو اس عظیم کام کے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ضروری تھی۔ آ پ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں بڑی بڑی عظیم علمی و روحانی شخصیات شامل ہیں۔ پیر محمد حبیب الرحمان محبوبی (بریڈفورڈ)، پیر غلام نصیر الدین چشتی (گولڑہ شریف)، علامہ سید محمد اشرف شاہ (ناروے)، پروفیسر ڈاکٹر محمد جمیل الرحمان شاہ ( کامونکی شریف)، علامہ عارف حسین سعیدی (چشم) اور دور حاضر کی دیگر بیشمار شخصیات نے آپ کی بار گاہ سے علمی فیضان کے حصول کیلئے زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ پیر طریقت صاحبزادہ محمد حبیب الرحمان محبوبی کی دعوت پر آپؒ دو دفعہ انگلینڈ تشریف لائے۔ پہلی دفعہ 1990اور دوسری دفعہ1993میں۔ اس دوران آپ شرح صحیح مسلم شریف لکھ رہے تھے۔ آپؒ نے اپنی اس شرح میں ذکر بھی کیا ہے کہ کچھ حصہ صفۃ الاسلام بریڈ فورڈ میں بیٹھ کر تحریر فرمایا۔ اس دوران صاحبزادہ حبیب الرحمان صاحب نے اپنے تاثرات میں حضرت کی خدمت میں تفسیر قرآن پر کام کرنے کی استدعا بھی کی۔ جس کا ذکر علامہ سعیدی نے شرح صحیح مسلم کی پانچویں جلد کے صفحہ چونتیس اور پینتیس پر فرمایا ہے۔ اور بعد ازاں تفسیر تبیان القرآن پر کام شروع کیا۔ آپ نے ہمیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑا بلکہ علمی خزانے اور کتب کی صورت میں بہترین دوست دے کر گئے۔ اللہ تعالی اکتساب فیض کی توفیق دے۔ علامہ صاحب کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں’’ تمغہ امتیاز سے نوازا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ