مجھے تمغۂ حُسنِ دیوانگی دو
کہ میں نے سہی ہے
دل و جاں پہ دونوں جہانوں کی وحشت
نفس در نفس در نفس وہ اذّیت
کہ جس سے اُبل آئیں یزداں کی آنکھیں
اذیّت کہ جس سے
مرے روزوشب سے نچڑنے لگا ہے شفق رنگ لاوا
شفق رنگ لاوا جو میرا لہو ہے
لہو جو رگ و پَے میں چیخوں کی مانند ہے محوِ گردش
وہی تیز گردش
جو دل کی پُر اسرار محراب میں گُونجتی ہے دمادم
شدید اور پیہم
مجھے تمغۂ حُسنِ دیوانگی دو
مجھے تمغۂ حُسنِ آوارگی دو
کہ جاں ہار کر چھان مارے ہیں میں نے
شمالی جہانوں کے سارے سمندر
جنوبی زمانوں کے سارے ستارے
ازل تا ابد کے شفق تاب باغوں کے سارے کنارے
کنارے کہ جن کی حدیں ہیں پرندِ تخیل کی ہر ہر رسائی سے آگے
خداؤں کی ساری خدائی سے آگے
ہر اک در پہ پہنچی مرے دل کی ٹِک ٹِک
نہیں چھوڑا کچھ بھی نہ مغرب نہ مشرق
مجھے تمغۂ حُسنِ دیوانگی دو
مجھے تمغۂ حُسنِ بیگانگی دو
کہ اِک ثانیے میں مِٹا ڈالے میں نے
وہ سب نقشِ صد رنگ جو رُوح کے حافظے پر کُھدے تھے
وہی حافظہ جو تمہارے خدوخال سے تھا مزیّن
بس ایک ثانیے میں بُھلا ڈالے میں نے
شب و روز سارے
مجھے تمغۂ حُسنِ بیگانگی دو
مگر اے سخی! جتنے تمغے بھی دو گے
اگر چاہتے ہو تو لے لینا مُجھ سے
اور ان سب گراں مایہ تمغوں کے بدلے
فقط یہ صلہ ہو
تمہارے شفق رنگ پیروں کا ایک ایک بوسہ عطا ہو