فصیل پر ہیں ہوا کی روشن چراغ جس کے

فصیل پر ہیں ہوا کی روشن چراغ جس کے
سیاہ راتوں میں جس نے روشن شجر کیے ہیں
وہ جس نے موجوں کو تیشہ اندازیاں سکھا کر
رقم چٹانوں پہ راز ہائے ہنر کیے ہیں
وہ جس کی رحمت نے دشت کے دشت
سبزۂ ُگل سے بھر دیے ہیں
وہ جس کی مدحت میں حرف و آواز گنگنائیں
خموشیاں جس کے گیت گائیں
وہ جس کے جلوے افق افق ہیں
وہ جس کی کرنیں شفق شفق ہیں
ازل سے پہلے
ابد سے آگے
اُسی کو ہر اختیار حاصل
اُسی کو عزّو وقار حاصل
وہ ایک مالک
اُسی کا سب ہے
وہ تو ربّ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]