فضا کا ہول نہ ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے

اگر ہے خوف شکاری کو تو مچان کا ہے

میں اُس کو بھولنا تو چاہتا ہوں لیکن پھر

وہ اِک اٹوٹ تعلق جو درمیان کا ہے

تمہارے نام کی ناؤ اُتاری ہے دِل میں

بھروسہ ہم کو ہوا کا نہ بادبان کا ہے

گذر ہے دھوپ کے صحرا سے اب کے اشعرؔ اور

ہمارے ساتھ فقط سایہ آسمان کا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]