قرآن سے پاتے ہیں کیا خوب یہ دانائی

’’جآوٗکَ‘‘ پڑھا جب سے، عُشاق کی بن آئی

اقرار گناہوں کا کرتے ہوئے روتے ہیں

کہتے ہیں ’سیہ کاری‘ روضے پہ تو لے آئی!

دربارِ رسالت سے پاتے ہیں تسلی وہ

آتے ہیں یہاں جو بھی بخشش کے تمنائی!

ہوں عفو طلب عاصی، آقا بھی یہی چاہیں!

تن رَبّ کی طرف سے یوں ہوتی ہے پذیرائی

کِھل جاتے ہیں سب غنچے پھر مغفرتِ رَبّ کے

اللہ بھی کرتا ہے ایسی چمن آرائی!

کیا خوب عزیزؔ احسن، نسخہ یہ ملا تجھ کو

یوں تیری معافی کی صورت بھی نکل آئی!

نوٹ:بعد صلوٰۃ العشاء ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ پڑھنے لگا۔ تو فیض احمد فیضؔ

کا شعری فیض پہنچا۔ وہ کہتے ہیں:

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یونہی پذیرائی

ہفتہ : ۱۶؍ ذیقعدہ ۱۴۲۹ھ…۱۵؍ نومبر ۲۰۰۸ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]