لیے رخ پہ نوری نقاب آ گئے ہیں
جنابِ رسالت مآب آ گئے ہیں
مقفّل ہوا جن پہ بابِ رسالت
وہ آقائے عزت مآب آ گئے ہیں
اشارہ ملا اس طرح حاضری کا
کہ شہرِ مدینہ کے خواب آ گئے ہیں
یہ ارض و سما جن کے صدقے بنے ہیں
دو عالم کے وہ انتساب آ گئے ہیں
سرِ عرش رونق ہے شاداں ہیں قدسی
حبیبِ خدا وہ جناب آ گئے ہیں
اندھیروں سے کہہ دو کہ خورشیدِ بطحا
لئے نکہتوں کا نصاب آ گئے ہیں
لکھا نامِ نامی جو منظرؔ نے ان کا
تو اعراب مثلِ گلاب آ گئے ہیں