مجھ کو طیبہ میں بلاؤ تو مری بات بنے

یا مرے خواب میں آؤ تو مری بات بنے

میری آنکھو! جو ندامت کے گہر بن جائیں

ایسے اشکوں سے نہاؤ تو مری بات بنے

اے بہارو! مرے گلزارِ تمنا میں کوئی

پھول مدحت کا کھِلاؤ تو مری بات بنے

تختِ شاہی کی طلب مجھ کو نہیں ہے آقا

اپنے قدموں میں بٹھاؤ تو مری بات بنے

میں نہ پاؤنگا سکوں اور کسی نغمے سے

مجھ کو اک نعت سناؤ تو مری بات بنے

روشنی ہوتی چلی جاتی ہے کم آنکھوں کی

اپنا دربار دِکھاؤ تو مری بات بنے

درد بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اے نورؔ اب تو

خاکِ پا ان کی جو لاؤ تو مری بات بنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]