مدینے والے ہمارے دل ہیں ازل سے تشنہ ازل سے ترسے

ازل کی تشنہ زمینِ دل پر کرم کا ابرِ مطیر برسے

لطیف جذبے عمیق جملے جمیل نعتیں جو لکھ رہا ہوں

میں لے کے آیا ہوں ذوقِ مدحت نبیٔ اکرم کے سنگِ در سے

دیارِ بطحا کا ذرہ ذرہ ہے ماہ و انجم سے بڑھ کے روشن

سمجھ نہ آئے اگر یہ منطق مدینہ دیکھو مری نظر سے

قرار دیتی ہوئی یہ راہیں بسائے رکھنا دل و نظر میں

گزر کے جائیں گے اہلِ جنت اسی مدینے کی رہ گزر سے

ہمیں بہت یاد آ رہی ہیں وہ عود و عنبر سے پر فضائیں

کہاں سے لائیں وہ کشتِ جنت فضا وہ لائیں گے ہم کدھر سے

ملی ہے جود و سخا کی عادت کریم ہیں وہ کرم ہے خصلت

معاف کرنا ہے ان کا شیوہ وہ کام لیتے ہیں در گزر سے

نگاہِ اشفاقؔ شہرِ بطحا کو چومتی ہے عقیدتوں سے

امام مالک کی مثل آنکھیں لپٹ کے روتی ہیں بام و در سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]