مرا خود سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہو رہا

ترا آئینہ ، مرا آئینہ نہیں ہو رہا

ترے ہجر میں ابھی ایک شب بھی کٹی نہیں

کہ گمان بھی مجھے جینے کا نہیں ہو رہا

کوئی خواب رکھ کے چلا گیا مری آنکھ میں

مجھے جاگنے کا بھی حوصلہ نہیں ہو رہا

میری اکھڑی اکھڑی جو سانس تھی ، وہ تو چل پڑی

تو بحال کیوں مرا حافظہ نہیں ہو رہا

میں نے جرم ِ عشق کا اعتراف تو کر لیا

تو یہ کس لیے مرا فیصلہ نہیں ہو رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]