ممتاز شاعر، اور براڈ کاسٹر تابش دہلوی کا یوم وفات

آج دبستان دہلوی کے آخری چراغ، ممتاز شاعر، دانشور اور براڈ کاسٹر تابش دہلوی کا یوم وفات ہے

مسعود الحسن تابش دہلوی دبستان دہلی کے آخری چراغ، اردو کے مایہ ناز غزل گو شاعر، دانشور اور براڈ کاسٹر تھے۔ تابش دہلوی اپنے مخصوص لب و لہجے کے باعث معروف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیدائش و تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تابش دہلوی نے 9 نومبر 1910ء کو دہلی کے علمی گھرانے میں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد حیدرآباد دکن سے ثانوی تعلیم حاصل
کی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی آئے اور 1958ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملازمت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1939ء میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔ تابش کا آڈیشن پطرس بخاری نے لیا اور انہیں پروگرام اناؤنسر کے لیے منتخب کیا جس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے خبریں بھی پڑھنا شروع کیں۔ ریڈیو کے لیے 3 جون 1947ء کو قیام پاکستان کے تاریخی اعلان کی خبر تابش صاحب ہی نے ترتیب دی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد 17 ستمبر 1947ء کو ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور اپنی زندگی ریڈیو پاکستان کے لیے وقف کر دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر، داغ دہلوی کے داماد سائل دہلوی کا یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تابش دہلوی نے پہلا شعر تیرہ برس کی عمر میں کہا تھا جب کہ ان کی پہلی نظم یا غزل 1931ء میں دہلی کے مشہور جریدے ساقی میں شائع ہوئی۔ 1932ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ شاعری میں انھوں نے فانی بدایونی سے اصلاح لی۔ تابش بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ غزل کی صنف کے علاوہ تابش دہلوی نے نعت، مرثیہ، ہائیکو، آزاد نظم، گیت اور قومی نغمے بھی تخلیق کیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخلیقات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تابش دہلوی کے مندرجہ ذیل 6 شعری مجموعے اور 1 نثری مجموعہ شائع ہوچکے ہیں۔
دیدہ بازدید (مضامین)
نمروز ( 1963ء ) شاعری
چراغِ سحر ( 1982ء ) شاعری
غبارِ انجم ( 1984ء ) شاعری
تقدیس ( 1984ء ) شاعری
ماہِ شکستہ ( 1993ء ) شاعری
دھوپ چھاؤں ( 1996ء ) شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمونۂ کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرمندہ ہم جنوں سے ہیں ایک ایک تار کے
کیا کیجیئے کہ دن ہیں ابھی تک بہار کے
اے عمر شوق دیکھیے ملتا ہے کیا جواب
ہم نے کسی کا نام لیا ہے پکار کے
سرگشتۂ الم ہو کہ شوریدہ سر کوئی
احساں ہیں اہل شوق پہ دیوار یار کے
اللہ رے انتظار بہاراں کی لذتیں
گزری ہے یوں خزاں بھی کہ دن ہوں بہار کے
تابشؔ سکون درد سے تسکین مرگ تک
دل ہو اگر تو لاکھ ہیں پہلو قرار کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : ممتاز ادیب اور شاعر شہاب دہلوی کا یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باغ میں جوشِ بہار آخر یہاں تک آ گیا
بڑھتے بڑھتے شعلہ گُل آشیاں تک آ گیا
اک جہاں اس حادثہ سے بے خرب ہے اور یہاں
دل میں ڈوبا نشترغم اور جاں تک آ گیا
اس کے آگے اب ایر کارواں کام ہی
گرتا پڑتا میں سواد کارواں تک آگیا
لاکھ منزل سے ہوں آگے پھر ی اے جوش طلب
مڑکے دیکھوں تو کہ میںخر کہاں تک آ گیا
اپنی برق حسن کو اب تو بروئے کار لا
دست شوق آخر حجاب درمیاں تک آگیا
پھر بھی آہ زیرلب کے ماسوا کچھ بھی نہیں
قصۂ غم یوں تو کہنے کو زباں تک آگیا
میں کہ مشت پر ہوں تابشؔ محو گلشن ہوں تو کیا
اس فریب رنگ وبو میں باغباں تک آگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب غم کہیں جسے کہ تمنا کہیں جسے
وہ اضطراب شوق ہے ہم کیا کہیں جسے
ہے جہد منفرد سبب کاروبار دہر
اک اضطراب قطرہ ہے دریا کہیں جسے
نعمت کا اعتبار ہے حسن قبول سے
عشرت بھی ایک غم ہے گوارا کہیں جسے
ملتا نہیں ہے اہل جنوں کا کوئی سراغ
بس ایک نقش پا ہے کہ صحرا کہیں جسے
پہلے حیات شوق تھی اللہ رے انقلاب
اب اعتبار غم ہے تمنا کہیں جسے
ہے میرے کائنات تصور کا اک فریب
وہ جلوۂ خیال کہ دنیا کہیں جسے
کچھ کم نگاہیاں ہیں تجلی کی آڑ سے
ایسی بھی اک نگاہ تماشا کہیں جسے
تنہائی خیال سے تابشؔ یہ حال ہے
ایسا کوئی نہیں کہ ہم اپنا کہیں جسے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

معروف شاعر جرم محمد آبادی کا یومِ وفات

آج معروف شاعر جرم محمد آبادی کا یومِ وفات ہے (پیدائش: 4 فروری، 1903ء- وفات: 15 جنوری، 1980ء) ———- جرم کا اصل نام ابوالحسن تھا اور تخلص جرم جبکہ شہرت جرم محمد آبادی سے پائی- 4 فروری 1903 کو جرم محمد آباد ضلع اعظم گڑھ کے قصبے محمد آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں سامری […]

معروف شاعر سید محسن نقوی کا یوم وفات

آج معروف شاعر سید محسن نقوی کا یوم وفات ہے (پیدائش: 5 مئی ، 1947ء- وفات: 15 جنوری، 1996ء) ———- محسن نقوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔ ان کا مکمل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن اُن کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ لہذا بحیثیت ایک […]