پردۂ تکوین پر جب جلوۂ یزداں کُھلا

دفترِ تمدیح جانِ عالمِ اِمکاں کُھلا

اِک تسلسل چل رہا تھا بے نہایت دید کا

خواب کے ما بعد جب یہ دیدۂ حیراں کُھلا

خون حسرت تھوکتے تھے زخم ہائے شوقِ دل

مندمل ہوتے گئے جب دید کا درماں کُھلا

ہو گئے روشن شعور و آگہی کے قمقمے

نعت کے جب بام پر بابِ شہِ خوباں کُھلا

کب تری نسبت نے رکھا ہے حصارِ حبس میں

کب تری مدحت کے ہوتے خانۂ حرماں کُھلا

تا ابد متروک ٹھہرے سلسلہ ہائے نزول

خاورِ بعثت پہ جب وہ مطلعِ قُرآں کُھلا

والئ اقلیمِ مِلکِ ذوالمنن کے سامنے

کب لبِ شکوہ طرازِ تنگئ داماں کُھلا

فیض یابِ خیرِ کامل ہو گئے سب تشنہ لب

اُس سحابِ خیر کا جب موسمِ باراں کُھلا

کب کسی کو منفعل ہونے دیا ہے آپ نے

کب کسی عاصی کا محضر نامۂ عصیاں کُھلا

نعت ہی مقصودؔ ہے عقدہ کشائے ہست و بُود

سخت مشکل تھی مگر مَیں کس قدر آساں کُھلا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]