اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کا یومِ پیدائش ہے۔

کلیم عثمانی
(پیدائش: 28 فروری 1928ء – وفات: 28 اگست 2000ء)
——
اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کی تاریخ پیدائش 28 فروری 1928ء ہے۔
کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا اور وہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کلیم عثمانی نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور احسان دانش سے اصلاح لینی شروع کی۔ 1955ء میں انہوں نے کراچی میں بننے والی فلم انتخاب سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔اس کے بعد انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے نغمے لکھے۔فلم راز کے لئے تحریر کردہ ان کا نغمہ میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا بے مقبول ہوا۔ یہ نغمہ زبیدہ خانم نے گایا تھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔
1966ء میں فلم ہم دونوں میں ان کی غزل ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا۔یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا اور اس کی موسیقار نوشاد نے ترتیب دی تھی۔ انہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کئے۔جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔ 1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کئے۔ فلم فرض اور مامتا میں انہوں نے ایک ملی گیت ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ تحریر کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ نغمہ آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ ’’یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے‘‘ کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے۔
کلیم عثمانی کی غزلیات کا مجموعہ دیوار حرف اور نعتیہ مجموعہ ماہ حرا کی نام سے شائع ہوا تھا۔ 28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی، لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں علامہ اقبال ٹاؤن میں کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
کلیم عثمانی۔ شاندار فلمی نغمات اور ملی گیتوں کا شاعر، عبد الحفیظ ظفر
——
برصغیر کی فلمی تاریخ میں کچھ نغمہ نگار ایسے بھی تھے جنہیں صرف گیت نگاری کی وجہ سے ہی شہرت نہیں ملی بلکہ انہیں ایک عمدہ غزل گو کی حیثیت سے بھی جانا جاتا تھا۔ جیسے قتیل شفائی، مجروح سلطانپوری، شکیل بدایونی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، جانثار اختر اور کئی دوسرے، ان میں ایک نام کلیم عثمانی کا بھی تھا۔ جنہوں نے بے مثال فلمی گیت تخلیق کئے اور اس کے علاوہ ایک خوبصورت غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا۔
28فروری1932ء کو دیو بند ضلع سہارنپور (بھارت) میں پیدا ہونے والے کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ جبکہ کلیم تخلص تھا۔ ان کے خاندان کا تعلق مولانا شبیر احمد عثمانی سے جا ملتا ہے۔ کلیم عثمانی کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی اپنے زمانے کے اچھے شاعر تھے۔ شروع میں والد سے شاعری میں اصلاح لی۔1947ء میں ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا۔ کلیم عثمانی نے یہاں احسان دانش کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی آواز میں ترنم تھا اس لیے مشاعروں میں انہیں خوب داد ملتی تھی۔ ابتدا میں انہوں نے صحافت بھی کی۔ پھر انہوں نے فلمی شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔ سب سے پہلے انہوں نے 1955میں فلم ’’انتخاب‘‘ کے گیت تحریر کئے اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی۔ فلم ناکام ہو گئی لیکن کلیم عثمانی ناکام نہیں ہوئے۔1957ء میں انہوں نے فلم ’’بڑا آدمی‘‘ کے گیت تحریر کئے ۔ مبارک بیگم اور احمد رشدی کی آواز میں یہ دوگانا ’’کاہے جلانا دل کو چھوڑو جی غم کے خیال کو‘‘ بہت مقبول ہوا پھر1959ئمیں ان کے لکھے ہوئے فلم’’راز‘‘ کے گیتوں نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس فلم کی موسیقی بھی فیروز نظامی کی تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
زبیدہ خانم کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت’’میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا‘‘ اس کے بعد وہ ایک مسلمہ نغمہ نگار بن گئے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ مذکورہ بالا تمام فلموں کے ہدایت کار ہمایوں مرزا تھے ۔ 1966ء میں کلیم عثمانی نے ’’ہم دونوں‘‘ اور ’’جلوہ‘‘ کے گیت تخلیق کئے جس سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔’’جلوہ‘‘ کے یہ دو گیت انتہائی اعلیٰ درجے کے تھے۔1۔ کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں(مجیب عالم)2۔ لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں(مہدی حسن)’’ہم دونوں‘‘ میں ان کی گائی ہوئی اس غزل نے رونا لیلیٰ کو بے مثال شہرت سے نوازا۔ اس غزل کے مطلع کا پہلا مصرع کچھ یوں تھا’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘ اس کے بعد کلیم عثمانی نے ’’عصمت، جوش انتقام اور ایک مسافر ایک حسینہ‘‘ کے گیت لکھے جو بہت ہٹ ہوئے 1969ء میں انہوں نے ’’نازنین‘‘ اور ’’عندلیب‘‘ کے جو نغمات تحریر کئے انہیں بہت شہرت ملی۔یہاں ان فلموں کے صرف دو گیتوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
1۔ مستی میں جھومے فضا۔نازنین2۔ پیار کر کے ہم بہت پچھتائے۔
1971ء میں فلم ’’دوستی‘‘ میں انہوں نے قتیل شفائی اور تنویر نقوی کے ہمراہ گیت لکھے اور ان کے گیت بھی بہت پسند کئے گئے۔ ایک گانا تو بہت پسند کیا گیا۔
——
’’روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی‘‘
——
پھر فلم ’’بندگی‘‘ میں ان کا لکھا ہوا یہ گیت تو دل کے تاروں کو چھو لیتا ہے۔
——
’’خاموش ہیں نظارے، اک بار مسکرا دو‘‘
——
1973ء میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ’’گھرانہ‘‘ کے خورشید کی یہ فلم بھارتی فلم ’’دو راستے ‘‘ کا چربہ تھی۔ بہرحال ’’گھرانہ‘‘ بہت کامیاب رہی۔ اس فلم میں نیرہ نور نے پہلی بار فلمی نغمہ گایا۔ جس نے نیرہ نور کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ اس گانے کے بول تھے
——
’’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں بچھا دوں‘‘
——
اس بے مثل گیت کو کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔1974 میں فلم ’’شرافت‘‘ ریلیزہوئی اس میں کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے ایک گیت کو وہ شہرت نصیب ہوئی جس کی مثال ملنا مشکل ہے، اس گیت کی موسیقی بے بدل موسیقار روبن گھوش نے ترتیب دی تھی۔اس گیت کے بول تھے:
——
’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی‘‘
——
اگر یہ کہا جائے کہ کلیم عثمانی کو بطور ایک نغمہ نگار زندہ رکھنے کے لیے یہی ایک گیت کافی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کے بعد1978ء میں انہوں نے فلم ’’زندگی‘‘ کے جو گیت لکھے انہیں بھی بہت پذیرائی ملی۔ خاص طور پر فلم ’’زندگی‘‘ کا یہ نغمہ بہت مقبول ہوا
——
’’تیرے سنگ دوستی ہم نہ توڑیں کبھی‘‘
——
کلیم عثمانی نے ملی نغمات بھی تحریر کیے اور اس میدان میں بھی انہوں نے اپنے فن کا سکہ جمایا۔ مندرجہ ذیل ملی نغمہ تو ان کی پہچان بن چکا:
——
یہ وطن تمہارا ہے ،تم ہو پاسباں اس کے
اس شعری مجموعے کے شروع میں ہی ان کا یہ شعر ان کی فنی عظمت کی گواہی دیتا ہوا نظر آتا ہے۔
——
چنتا رہوں میں حرفوں کی دیوار کب تلک
اے کرب ذات سامنے آ کر دکھا مجھے
——
98 غزلیات کے اس مجموعے کے شروع میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ یہ 1950ء سے 1958 ء تک کے کلام کا بے رحمانہ انتخاب ہے۔کلیم عثمانی کی غزلوں میں ہمیں رومانویت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور عصری صداقتوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک صاف گو اور اصول پسند شخص تھے جنہوں نے زندگی بھر سچائی سے محبت کی اور منافقت سے نفرت۔ ذیل میں ان کی غزلوں کے کچھ اشعار کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
——
میں نے سمجھا تھا ملے گی مجھ کو ہمدردی کی بھیک
لوگ تو میرے غموں سے دل کو بہلانے لگے
——
کیا شخص تھا کیا اس کے خدوخال بتائیں
کلیاں بھی اسے دیکھ کے ملتی رہیں آنکھیں
——
جب سے وہ شخص میری نگاہوں میں بس گیا
اپنی طرف بھی دیکھنے کو میں ترس گیا
——
دور ہوں میں منافقت سے کلیم
جیسا اندر ہے ویسا باہر ہے
——
کلیم عثمانی آج اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کا شعری خزانہ موجود ہے۔ ان کے فلمی گیت اور غزلیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔
——
منتخب کلام
——
میں اپنے شہر میں پھر بھی اجنبی سا ہوں
جنوں یہ ہے کہ وفا کو تلاش کرتا ہوں
——
ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت
پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساس تنہائی بہت
——
ہے زیب گلو کب سے مرے دار کا پھندا
مجرم ہوں اگر میں تو سزا کیوں نہیں دیتے
——
جب کسی نے قد و گیسو کا فسانہ چھیڑا
بات بڑھ کے رسن و دار تک آ پہنچی ہے
——
روز مصلوب ہوئے اپنی انا کے ہاتھوں
ہم نے دنیا میں بہت کم ہی قلندر دیکھے
——
کیا شخص تھا کیا اس کے خدوخال بتائیں
کلیاں بھی اسے دیکھ کے ملتی رہیں آنکھیں
——
جب سے وہ شخص میری نگاہوں میں بس گیا
اپنی طرف بھی دیکھنے کو میں ترس گیا
——
دور ہوں میں منافقت سے کلیم
جیسا اندر ہے ویسا باہر ہے
——
جب سرِ شام کوئی یاد مچل جاتی ہے
دِل کے ویرانے میں اک شمع سی جل جاتی ہے
جب بھی آتا ہے کبھی ترکِ تمنا کا خیال
لے کے اک موج کہیں دور نکل جاتی ہے
یہ ہے مے خانہ یہاں وقت کا احساس نہ کر
گردشِ وقت یہاں جام میں ڈھل جاتی ہے
خواہشِ زیست، غمِ مرگ، غمِ سُود و زیاں
زندگی چند کھلونوں سے بہل جاتی ہے
جب وہ ہنستے ہوۓ آتے ہیں خیالوں میں کلیمؔ
شامِ غم، صبحِ مسرت میں بدل جاتی ہے!
——
رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا
کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پروائی کا
اڑتے لمحوں کے دامن میں تیری یاد کی خوشبو ہے
پچھلی رات کا چاند ہے یا ہے عکس تری انگڑائی کا
کب سے نہ جانے گلیوں گلیوں سائے کی صورت پھرتے ہیں
کس سے دل کی بات کریں ہم شہر ہے اس ہر جائی کا
عشق ہماری بربادی کو دل سے دعائیں دیتا ہے
ہم سے پہلے اتنا روشن نام نہ تھا رسوائی کا
شعر ہمارے سن کر اکثر دل والے رو دیتے ہیں
ہم بھی لئے پھرتے ہیں دل میں درد کسی شہنائی کا
تم ہو کلیمؔ عجب دیوانے بات انوکھی کرتے ہو
چاہ کا بھی ارمان ہے دل میں خوف بھی ہے رسوائی کا
——
رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح
خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح
پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مری ، بادل کی طرح
بے وفاؤں سے وفا کرکے ، گذاری ہے حیات
میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح
——
اس پرچم کے سائے تلے ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے ، ایک گگن کے تارے
ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں ، سرگم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت قوم ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
پاک وطن کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری
اپنی جان سے پیاری
اپنی شان ہے اس کے دم سے ، یہ ہے آن ہماری
یہ ہے آن ہماری
اپنے وطن میں پھول اور شبنم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
——
یہ وطن تمھارا ہے ، تم ہو پاسباں اسکے
یہ چمن تمھارا ہے ، تم ہو نغمہ خواں اسکے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر زرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمھاری ہے بحروبر تمھارے ہیں
کہکشاں کے یہ اجالے راہگزر تمھارے ہیں
یہ وطن تمھارا ہے ، تم ہو پاسباں اسکے
اس زمین کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میر کارواں مانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اسکے
یہ زمیں مقدس پے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولت یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو
یہ وطن تمھارا ہے ، تم ہو پاسباں اسکے
میر کارواں ہم تھے روح کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا
یہ وطن تمھارا ہے ،تم ہو پاسباں اسکے
——
گیت
——
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے
لہر بھی ہوئی مستانی سی
تیری زلف کو چھو کر آج ہوئی
خاموش ہوا دیوانی سی
یہ روپ کا کندن دہکا ہوا
یہ جسم کا چندن مہکا ہوا
الزام نا دینا پھر مجھ کو
ہو جائے اگر نادانی سی
بکھرا ہوا کاجل آنکھوں میں
طوفان کی ہلچل سانسوں میں
یہ نرم لبوں کی خاموشی
پلکوں میں چھپی حیرانی سی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ