کچھ بات مرے منہ سے نکلنے نہیں دیتے

اللہ رے غمزے کہ سنبھلے نہیں دیتے

کافر نہیں کرتے ہیں مسلماں نہیں رکھتے

دم بھر مجھے اک راہ چلنے نہیں دیتے

لبریز ہے دل جوش انا اللہ سے لیکن

اس کوزے سے دریا کو ابلنے نہیں دیتے

کر جاتے ہیں ہر درد میں آکر مری تسکیں

لخت دل صد پارہ اگلنے نہیں دیتے

عاشق ہوں مجھے عشق سے ترکیب دیا ہے

مٹی میں ملا کر مجھے گلنے نہیں دیتے

داغوں سے بنایا ہے مجھے سرو چراغاں

کیا غم ہے اگر پھولنے پھلنے نہیں دیتے

پامال کیا مجھ کو عزیز ان کی روش نے

آنکھیں کبھی ان تلووں سے ملنے نہیں دیتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]