کس قدر محو تماشا ہو گیا
اس کی صورت میں سراپا ہو گیا
حق سمجھ کر پوجتا ہوں بت کو میں
کعبۂ دل اب کلیسا ہو گیا
دیکھتا ہوں یار کو ہر شکل میں
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا
جب سے دیکھا ان کو آنکھیں کھل گئیں
دیدۂ بے نور بینا ہو گیا
اب نہیں قابو میں آتا دل عزیزؔ
مبتلا خادم صفیؔ کا ہو گیا