کھو چکا قبل ازیں بول کے گویائی بھی

چھین لی جائے نہ گستاخ کی بینائی بھی

آگہی ، جادوئی زنبیل ہے ، جس میں سمٹی

وسعتِ خواب بھی ، تعبیر کی گہرائی بھی

وہ سخن پوش بھی خاموش ہے عریاں ہو کر

دم بخود ہیں سرِ بازار ، تماشائی بھی

کوچہِ عشق میں گم نام نہیں مر سکتا

خود نُما شوق کو منظور ہے رسوائی بھی

اُس کی افسردہ نگاہوں میں کہیں داد نہ تھی

ہم نے ہر چند غزل جھینپ کے دہرائی بھی

درد ، کم ظرف ، مروت کا روادار کہاں

کام آئی نہ شبِ ہجر شناسائی بھی

رہ گئے کانپ کے ہونٹوں کے دھڑکتے گوشے

اُڑ گئی لحنِ بلاء خیز کی رعنائی بھی

آپ ہی سونت لی تلوار ، مقابل اپنے

غیر ممکن ہوئی میدان سے پسپائی بھی

عمر ، اُس وادیِ آشوب میں اُتری ہے ، جہاں

گونج اُٹھتی ہے چٹختی ہوئی تنہائی بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]