کہتے ہو تم کہ تم کو یقیں دین پر بھی ہے

حُبِّ رسولِ پاک ﷺ کا دل پر اثر بھی ہے

دعوے بہت ہیں عجز کے پر، کرّوفر بھی ہے

کچھ حُبِّ اقتدار بھی ہے عشقِ زر بھی ہے

’’اے وارثانِ طُرَّۂ طرفِ کلاہِ کیَ

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے‘‘

تم اقتدار ہی کو سمجھتے ہو زندگی

بھولے ہوئے ہو اپنے ہی لمحاتِ بے بسی

سچ بولنے کو کہتے ہو تم لوگ گمرہی

معروف کو مٹا کے ملی تم کو خسروی

’’اے وارثانِ طُرَّۂ طرفِ کلاہِ کیَ

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے‘‘

موقع پرست لوگوں کا اتنا ہوا اثر

گمراہوں کے ہجوم کو سمجھے ہو معتبر

پھولوں کے بدلے لینے لگے ہاتھ میں شرر

اِدبار اور زوال کو بھولے ہو تم مگر

’’اے وارثانِ طُرَّۂ طرفِ کلاہِ کیَ

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے‘‘

اِترا رہے ہو چند دنوں کی بہار پر

پھولے نہیں سماتے ہو ڈھلتے نکھار پر

دھوکے میں پڑ گئے ہو سروں کے شمار پر

قابض رہا ہے کون سدا اقتدار پر؟

’’اے وارثانِ طُرَّۂ طرفِ کلاہِ کیَ

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے‘‘

ہر شے گزشتنی ہی رہی ہے یہاں پہ جی

چنگیز کو بھی مہلتِ شاہی ملی تو تھی

فرعون کو بھی سطوت و قوت عطا ہوئی

امجدؔ کی بات آج نہایت بھلی لگی

’’اے وارثانِ طُرَّۂ طرفِ کلاہِ کیَ

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے‘‘٭

’’سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے‘‘٭:٭(مجید امجد۔کلیات۔ص۲۲۷)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]