اردوئے معلیٰ

ہم اہلِ عشق ہیں ، صدیوں کو چمکاتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے

 

یہ آنسو: ان گنت قرنوں کے ماتھے کا پسینہ

یہ وحشت: بے شمار ادوار کے غم کا خزینہ

یہ لامحدود اذیّت ، یہ زمانوں کے کچوکے

مگر ہم عشق والے ہیں، خدا بھی کیسے روکے ؟

 

خدا سے لڑ جھگڑ کے بھی اُسے بھاتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے

 

خدائی بھی ہماری ہے ، خدا بھی ہے ہمارا

فرازِ عرش کا تارہ ہمارا استعارہ

مُحیطِ مشرقین و مغربین اپنا ہی گھر ہے

حیات و موت سے بھی ماورا اپنا سفر ہے

 

سفر میں بھی اِسی مصرعے کو دُہراتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے

 

ہماری سانس سلجھن کائناتی اُلجھنوں کی

صدائے کُن امانت ہے ہماری دھڑکنوں کی

ہماری آنکھ کے اندر ہے سیّاروں کا میلہ

ہماری سرکشی کا ڈر دلِ یزداں نے جھیلا

 

دلِ یزداں کو اِن کھیلوں سے بہلاتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات