یقین ہے یہ گماں نہیں ہے

وجود تیرا کہاں نہیں ہے

یہاں نہیں یا وہاں نہیں ہے

کہاں کہاں تو عیاں نہیں ہے

ہیں کور باطن ہمیں خدایا !

تو ہم سے ورنہ نہاں نہیں ہے

ہے ذرّے ذرّے پہ فیض تیرا

کرم سے خالی جہاں نہیں ہے

بشر ہی ٹھہرا حریص ورنہ

تو اُس پہ کب مہرباں نہیں ہے

زمیں، سمندر ، پہاڑ ، صحرا

کہاں خدا حکمراں نہیں ہے

ادا نہ ہو جس سے شکر تیرا

زباں وہ ہرگز زباں نہیں ہے

فراغؔ توصیف کیا کرے گا

زباں میں تابِ بیاں نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]