ہم اہلِ عشق ہیں ، صدیوں کو چمکاتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے

یہ آنسو: ان گنت قرنوں کے ماتھے کا پسینہ

یہ وحشت: بے شمار ادوار کے غم کا خزینہ

یہ لامحدود اذیّت ، یہ زمانوں کے کچوکے

مگر ہم عشق والے ہیں، خدا بھی کیسے روکے ؟

خدا سے لڑ جھگڑ کے بھی اُسے بھاتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے

خدائی بھی ہماری ہے ، خدا بھی ہے ہمارا

فرازِ عرش کا تارہ ہمارا استعارہ

مُحیطِ مشرقین و مغربین اپنا ہی گھر ہے

حیات و موت سے بھی ماورا اپنا سفر ہے

سفر میں بھی اِسی مصرعے کو دُہراتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے

ہماری سانس سلجھن کائناتی اُلجھنوں کی

صدائے کُن امانت ہے ہماری دھڑکنوں کی

ہماری آنکھ کے اندر ہے سیّاروں کا میلہ

ہماری سرکشی کا ڈر دلِ یزداں نے جھیلا

دلِ یزداں کو اِن کھیلوں سے بہلاتے رہیں گے

ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]