آج کیسے کرم یہ پھوٹے ہیں

کہہ دیا اس نے ”آپ جھوٹے ہیں “

میں نے بچپن میں خواب دیکھے تھے

میرے پچپن میں خواب ٹوٹے ہیں

ہاتھ، ہاتھوں میں اب نہ آئیں گے

ہاتھ ہاتھوں سے ایسے چھوٹے ہیں

گلستاں کا گماں گزرتا ہے

جس ہتھیلی پہ پھول بوٹے ہیں

اب نہ ہو گا مداوا ساری عمر

ہم عیقدت میں ایسے لوٹے ہیں

خار زاروں سے کیا گلہ طاہر

آبلے گلستاں میں پھوٹے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]