آپ کے در کے سوا ہم نے کدھر جانا ہے

ریت کے ذرّوں کی مانند بکھر جانا ہے

اک نظر لُطف کی کافی ہے خرابوں کے لیے

آپ کے دیکھے سے بگڑوں نے سنور جانا ہے

ابر رحمت کا برس جائے اگر اس دل پر

زنگ دنیا کا مرے دل سے اُتر جانا ہے

خاکِ نعلین ستاروں سے ہے بڑھ کر ہم کو

ذرّہِ نقشِ کفِ پا کو گہر جانا ہے

یہ عبادت ہے عقیدت ہے عطائے رب ہے

نعتِ سرکار کو کب محض ہنر جانا ہے

ساتھ خوشبو کے فدا تو بھی روانہ ہو جا

بارگاہِ شہِ لولاک میں گَر جانا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]