اردوئے معلیٰ

آج نامور شاعر سلام مچھلی شہری کا یوم وفات ہے

سلام مچھلی شہری(پیدائش: 1 جولائی 1921ء – وفات: 19 نومبر 1973ء)
——
سلام مچھلی شہری بیسویں صدی عیسوی میں اردو کے ایک معروف نظم اور غزل گو شاعر تھے۔ سلام مچھلی شہر ی پدم شری سے بھی نوازے گئے تھے
سلام مچھلی شہری کی ولادت 1 جولائی 1921ء کو صوبہ اترپردیش کے ضلع جونپور کے ایک شہر مچھلی شہر میں ہوئی۔ انہیں اردو، انگریزی اور فارسی زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ اردو میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ 19 نومبر 1972ء کو ان کی وفات ہوئی۔
ادبی سفر
سلام مچھلی شہری کی بہت ساری غزلوں کو موسیقی کا جامہ پہنایا گیا۔ جگجیت سنگھ جیسے مشہور غزل گائیکوں نے ان کی غزلوں کو اپنی آواز دی۔ انہوں نے اردو میں سانیٹ بھی لکھے ہیں۔ وہ ترقی پسند تحریک کے بہت متحرک کارکن تھے۔ ایک مراٹھی مضمون "گیت یاترے” میں مادھو موہولکر نے لکھا کہ فیض احمد فیض، اسرار الحق مجاز، جذبی، سلام مچھلی شہری، ساحر لدھیانوی اور دیگر شعرا نے اردو ادب میں ترقی پسند شاعری کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ سلام مچھلی شہری اور جانشین داغ عبد المتین مچھلی شہری مچھلی شہر کے دو سب سے مشہور شعرا ہیں جنھوں نے معاصر اردو شاعری میں ناقابل فراموش اثرات چھوڑے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہادی مچھلی شہری کا یوم وفات
——
مختصر سوانح
——
نام : عبد السلام
تخلص : سلامؔ
وطن : مچھلی شہر جونپور
جد محترم : جناب محمد اسماعیل صاحب
تاریخِ پیدائش : یکم جولائی 1921 ء
ابتدائی تعلیم کا آغاز : مچھلی شہر ( مڈل اسکول سے )
فیض آباد میں : 1935 ء سے 1940 ء تک
الہ آباد یونیورسٹی میں : 1940 ء سے 1943 ء تک
شادی : 1941 ء الہ آباد میں
آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت : 1943 ء لکھنؤ
کشمیر میں قیام : 1951 ء
آل انڈیا ریڈیو دہلی میں : 1952 ء
انتقال دہلی میں : 19 نومبر 1973 ء
شاعری کا آغاز : مڈل اسکول مچھلی شہر جونپور 1930 – 1931 ء
پدم شری کا اعزاز : جنوری 1973 ء
شعری مجموعے : میرے نغمے 1940 ء ، وسعتیں 1944 ء ، پائل 1944 ء
ناول : بازو بند کھل کھل جائے
( بحوالہ کلام سلام مچھلی شہر ، مصنف سید منتظر جعفری ، شائع شدہ 1990 ، صفحہ نمبر 15 )
——
ادبا اور شعرا کی آرا
——
ابھی تک صرف دو شاعروں نے اچھی انقلابی نظمیں لکھی ہیں ۔ فیض احمد فیض کی نظمیں اپنی فن کارانہ تکمیل کے لحاظ سے بلند ہوتی ہیں ۔
سلام مچھلی شہری کی نظمیں اس کے احساس یا تجربے کے خلوص اور اس کی سادہ و پُرکار انفرادیت کی بنا پر ۔
( میرا جی )
——
ان کا جینے کا ولولہ اور شعر گوئی کا حوصلہ آخر وقت تک اتنا ہی پُرشور و پُرزور رہا جتن اکہ اس بائیس سالہ نوجوان سلام مچھلی شہری کا تھا جو آج سے تیس بتیس سال پہلے اردو شاعری کی کی تشکیل میں پیش پیش تھا ۔
( شمس الرحمن فاروقی )
——
وہ زندگی بھر زندگی میں شاعری اور شاعری میں زندگی کا حسن ڈھونڈتے رہے اور میٹھے میٹھے ، نرم نرم ، گنگناتے ہوئے ریشمی اور رنگین الفاظ میں قدرت ، عورت اور زندگی کی تصویر کشی کرتے رہے ۔
( عمیق حنفی )
——
( بحوالہ مجموعۂ سلام مچھلی شہری ، مرتب : بیدار بخت ، شائع شدہ 2019 ، سرورق )
——
منتخب کلام
——
نہیں میں شادماں ہوں زندگی پر ہنس بھی سکتا ہوں
اب اس کو کیا کروں گر ہو گئی ہے آنکھ نم ساقی
——
عروج آدم خاکی کا جشن ہے معبود
تیری طرف سے بھی کوئی پیام ہے کہ نہیں
——
تم اپنی بجلیوں کی نزاکت کو دیکھ لو
ہم جانتے ہیں اپنا نشیمن سنبھالنا
——
اک دل ہے اور وہ غمِ جاناں میں محو ہے
آ ، اے غمِ حیات ! مگر دیکھ بھال کے
——
شبِ وصال کے بجھتے چراغ کہتے ہیں
کہ اس فضا میں تنہائیاں ضروری ہیں
——
یہ سوچ کر کہ زہر بھی آبِ حیات ہے
خوش ہوں میں آستینوں میں کچھ سانپ پال کر
——
جگمگا اٹھتی ہے دل میں اک مقدس روشنی
جب نہیں ہوتا کہیں بھی آسرا میرے لیے
——
ہنس کر نہ دیکھ کہنہ چراغوں کو اے صبا
ان میں بھی زندگی کی حرارت ہے ، جوش ہے
——
بے شک حضور آپ خدا کی طرح رہیں
جینے کا حق ہمیں بھی ہے انساں کی طرح
——
میرے نغمے باغی بھی ہیں ، میرے نغمے پیارے بھی
اب جس کا جو ذوقِ نظر ہو ، پھول بھی ہیں انگارے بھی
——
یوں ہی آنکھوں میں آ گئے آنسو
جائیے آپ کوئی بات نہیں
——
غم پر ہیں طعنہ زن تو خوشی بھی نبھائیے
سرکار میری بادہ کشی بھی نبھائیے
موتی سے اشک آپ کے قدموں کو تھے عزیز
سوکھے ہوئے لبوں کی ہنسی بھی نبھائیے
پہلے تو موج گل تھی مرے ہر خیال میں
اب فکر کی یہ شعلہ روی بھی نبھائیے
یہ کیا کہ آپ صرف پرستش کریں قبول
معبود شہر میری خودی بھی نبھائیے
بے شک حضور ساقیٔ بزم بہار ہیں
لیکن خود اپنی تشنہ لبی بھی نبھائیے
ہاں ان حسین آنکھوں میں رقصاں ہے زندگی
پلکوں کی ہو سکے تو نمی بھی نبھائیے
شہزاد گان مملکت حسن کے طفیل
ہم شاعروں کی کج کلہی بھی نبھائیے
——
شگفتہ بچوں کا چہرہ دکھائی دینے لگے
میں کیا کروں کہ اجالا دکھائی دینے لگے
یہ سخت ظلم ہے مالک کہ صبح ہوتے ہی
تمام گھر میں اندھیرا دکھائی دینے لگے
وہ صرف میں ہوں جو سو جنتیں سجا کر بھی
اداس اداس سا تنہا دکھائی دینے لگے
میں کامیاب جبھی ہوں گا اے رباب حیات
کہ بزم کو ترا نغمہ دکھائی دینے لگے
گلاب اگانے کی عادت سے فائدہ کیا ہے
اگر گلاب میں شعلہ دکھائی دینے لگے
مرا ہی عکس سہی پھر بھی وہ فرشتہ ہے
جو غیر ہو کے بھی اپنا دکھائی دینے لگے
بہت علیل ہو لیکن یہ بزدلی ہے سلامؔ
کہ تم کو موت کا سایہ دکھائی دینے لگے
——
پھولوں کے دیس چاند ستاروں کے شہر میں
برباد ہو رہا ہوں نگاروں کے شہر میں
موج سمن میں زہر ہے باد صبا میں آگ
دم گھٹ رہا ہے یاسمیں زاروں کے شہر میں
آنسو ہوں ہنس رہا ہوں شگوفوں کے درمیاں
شبنم ہوں جل رہا ہوں شراروں کے شہر میں
وہ میں ہوں جس نے شعلۂ ساغر اچھال کر
کی ہے خزاں کی بات بہاروں کے شہر میں
یہ قلعہ اور یہ مسجد شاہ جہاں کا اوج
کس درجہ سرنگوں ہوں مناروں کے شہر میں
اے میری فطرت طرب آگیں خطا معاف
شرمندہ ہوں میں ظلم کے ماروں کے شہر میں
بس میں بنوں گا خسرو مہتاب اے سلامؔ
سوچا ہے یہ دھوئیں کے غباروں کے شہر میں
——
شعری انتخاب از مجموعۂ سلام مچھلی شہری
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ