اے عالم نجوم و جواہر کے کردگار

اے کارسازِ دہر و خدا وندِ بحر و بر

ادراک و آگہی کے لیئے منزل مراد

بہر مسافرانِ جنوں ، حاصلِ سفر

یہ برگ و بار و شاخ و شجر ، تیری آیتیں

تیری نشانیاں ہیں یہ گلزار ودشت و در

یہ چاندنی ہے تیری تبسم کا آئینہ

پر تَو تیرے جلال کا بے سایہ دوپہر

موجیں سمندروں کی، تیری رہگزر کے موڑ

صحرا کے پیچ و خم تیرا شیرازہ ہنر

اجڑے دلوں میں تیری خاموشی کے زاویے

تابندہ تیرے حرف ، سرِ لوحِ چشم تر

موجِ صبا خرام تیرے لطفِ عام کا

تیرے کرم کا نام ، دعا در دعا ،اثر

اے عالم نجوم و جواہر کے کردگار

پنہاں ہے کائنات کے ذوقِ نمو میں تو

تیرے وجود کی ہے گواہی چمن چمن

ظاہر کہاں کہاں نہ ہوا رنگ و بو میں تو

میری صدا میں ہیں تیری چاہت کے دائرے

آباد ہے سدا مرے سوزِ گلو میں تو

اکثر یہ سوچتا ہوں کہ موجِ نفس کے ساتھ

شہ رگ میں گونجتا ہے لہو، یا لہو میں تو

اے عالم نجوم و جواہر کے کردگار

مجھ کو بھی گرہِ شام و سحر کھولنا سکھا

پلکوں پہ میں بھی چاند ستارے سجا سکوں

میزانِ خس میں مجھ کو گہر تولنا سیکھا

اب زہر ذائقے ہیں زبانِ حر وف کے

ان ذائقوں میں خاک شفا گھولنا سکھا

دل مبتلا ہے کب سے عذابِ سکوت میں

تو ربِّ نطق و رب ہے مجھے بولنا سکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]