اے مرے خدا مرے مہرباں مجھے ایسا وصفِ کمال دے

ترا نام ورد زباں رہے مجھے ایسے سانچے میں ڈھال دے

کروں ہر گھڑی میں تری ثنا مری سانس میں ترا شکر ہو

ترا قرب ہو تری ذات ہو کوئی ایسا لمحہ وصال دے

ترا سنگ ہو یہ امنگ ہو تری بارگہ میں پڑی رہوں

مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے مری بے بسی کو زوال دے

رہے قلب میں تری روشنی ترے ذکر کی رہے چاندنی

بسے آنکھ میں جو تری چمک مجھے اپنا جلوہ جمال دے

میں کروں بیاں تری عظمتیں تری رفعتیں تری جلوتیں

میں جو سوچوں تیرے سوا کبھی مرے اُس خیال کو ٹال دے

ملے عشق تیرے حبیب کا مرا جینا مرنا اسی میں ہو

کروں تیرے نام پہ جاں فدا مجھے بھیکِ عشقِ بلال دے

میں فقیر تیرے ہی در کی ہوں ، نہیں کوئی میرا ترے سوا

ترے پاس کوئی کمی نہیں مری خالی جھولی میں ڈال دے

رہے خیر پر مرا خاتمہ ہے یہ قلبِ ناز کی التجا

میں لحد میں تیری ثنا کروں مجھے ایسا بخت کمال دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]