اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر راحت اندوری کا یوم وفات ہے

راحت اندوری( پیدائش : 1 جنوری 1950ء، وفات: 11 اگست 2020ء)
——
راحت اندوری ( پیدائش : 1 جنوری 1950ء، وفات: 11 اگست 2020ء) ایک بھارتی اردو شاعر اور ہندی فلموں کے نغمہ نگار تھے۔ وہ دیوی اہليہ یونیورسٹی اندور میں اردو ادب کے پروفیسر بھی رہے۔ انھوں نے کئی بھارتی ٹیلی ویژن شو بھی کیے۔ انھوں نے کئی گلوکاری کے رئیلیٹی شو میں بہ طور جج حصہ لیا ہے۔ راحت اندوری کا 11 اگست 2020ء بروز منگل انتقال ہوا۔
راحت اندوری کی پیدائش اندور میں یکم جنوری، 1950ء کو ہوئی۔ وہ ایک ٹیکسٹائل مل کے ملازم رفعت اللہ قریشی اور مقبول النساء بیگم کے یہاں پیدا ہوئے۔ وہ ان کی چوتھی اولاد ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور میں ہوئی۔ انہوں نے اسلامیہ كريميہ کالج اندور سے 1973ء میں اپنی بیچلر کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد 1975ء میں راحت اندوری نے بركت اللہ یونیورسٹی، بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اپنی اعلیٰ ترین تعلیمی سند کے لیے 1985ء میں انہوں نے مدھیہ پردیش کے مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک اچھے شاعر اور گیت کار ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کئی بالی وڈ فلموں کے لیے نغمے لکھے ہیں جو مقبول اور زبان زد عام بھی ہوئے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
——
بھارتی پارلیمان میں شاعری کی گونج اور سی اے اے کے خلاف احتجاج میں کلام کا استعمال
2019ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں اپنے انتخاب کے بعد پہلی تقریر میں ترینامول کانگریس کی قائد مہوا موئترا نے پہلی تقریر میں ملک میں کئی ہجومی تشدد کے واقعات اور بڑھتی فسطائیت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی تقریر کے اختتام پر راحت اندوری کے یہ اشعار پڑھے تھے، جس کا کئی دیگر ارکان نے میز تھپتھپا کر خیر مقدم کیا:
——
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
——
ان اشعار کا 2019ء میں بھارت میں پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کیے جانے والے متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کئی پلے کارڈ پر دیکھے گئے اور کئی تحریروں اور تقریروں میں استعمال کیے گئے۔
10 اگست 2020ء کو راحت اندوری صاحب کا کووڈ-19 کی جانچ کی گئی اور رپورٹ مثبت آئی، نیز وہ بندش قلب کے مرض میں بھی مبتلا تھے۔ مدھیہ پردیش کے اندور کے "آربندو ہسپتال” میں داخل کیا گیا، جہاں 11 اگست 2020ء کی شام میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً 70 سال تھی۔
——
بشکریہ وکی پیڈیا
——
راحت اندوری: اپنی طرز کا موجد بھی وہ خاتم بھی وہ
تحریر: پروفیسر صالحہ رشید
صدر شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی
——
وبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف
ابھی ماحول مر جانے کا نہیں
——
مرحوم راحت اندوری کا یہ شعر پڑھ کر طبیعت ملول ہوئی اور اس بات پر پہلے سے کہیں زیادہ یقین ہو گیا کہ ’آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں‘۔ ۱۱/ اگست ۰۲۰۲ء؁ کی شام راحت اندوری اس وبائی ماحول سے کنارہ کش ہو گئے۔آن کی آن میں یہ افسوسناک خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی۔بے شمار چاہنے والوں نے اپنے اپنے طور پررنج و غم کا اظہار کیا۔ان کی تعزیت کی خاطرشام کا اسپیشل اخبار نکلا۔اب رسائل و جرائد راحت اندوری کے نام پر خصوصی نمبر شائع کر انھیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : محبتِ شاہِ دین و دنیا کے کھل رہے ہیں چمن ہزاروں
——
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے
اے موت! تونے مجھ کو زمیندا ر کر دیا
——
راحت اندوری تودو گز زمین تلے جا بسے اور زمیندار ہو گئے مگر بظاہر اس سادہ سے دکھنے والے شعر کے ذریعے وہ غور و فکر کا ایسا سمندر چھوڑ گئے جس کی موج موج نئی ہلچل مچی ہوئی ہے۔در اصل وہ تو روایتوں کی صفیں توڑ کربہت دور نکل گئے، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اپنا راستہ کیسے بنائیں۔راحت نے جب اس جہان میں آنکھ کھولی تو سیاسی اعتبار سے ملک آزاد تھااور ادبی اعتبار سے ترقی پسند تحریک کا جوش کم ہو چکاتھا۔ راحت کی پیدائش ۱/جنوری ۰۵۹۱ء؁ کی ہے۔ انھوں نے ۹۱ / برس کی عمر سے شعر کہنا شروع کیااور علامہ اقبال کے اس شعر کو حرف حرف سچ کر دکھایا ؏
——
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
——
راحت کی خوبی یہ تھی کہ وہ حال میں جیتے تھے۔اپنے گرد وپیش سے کلی باخبر رہتے۔جب وہ عوام کے درمیان ہوتے تو جوان دلوں کی دھڑکن بن جاتے تو دوسری طرف بزرگوں کے اندر جوانی کا جوش بھر دیتے۔ایک مرد مجاہد کی مانند سینہ سپر ہو کر ظلم و نفرت کے خلاف انتہائی بیباکی سے اپنے جذبات کو شعرکے قالب میں ڈھال کر سامعین کے دامن میں اچھال دیتے۔چھوٹی بحر اور سیدھی سادی زبا ن میں ادا کئے گئے یہ اشعار عوام و خواص کو دعوت فکر دے جاتے۔ظالم حکمران سامعین کی صف اول میں جلوہ افروز ہوتے تب بھی ان کی صحت پر کوئی فرق نہ پڑتا۔ایسے ایسے شعر ان کی زبان سے ادا ہو گئے جو آج ضرب المثل بن چکے ہیں۔راست ضرب لگا دینا بس انھیں کا خاصہ تھا۔مثلاًپارلیمنٹ کی منظر کشی ایک چھوٹے سے شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؏
——
عجیب رنگ تھا مجلس کا، خوب محفل تھی
سفید پوش اٹھے کائیں کائیں کرنے لگے
——
ان کے طنز کے تیر و نشتر اتنے فطری ہوتے کہ عوام کا ذہن ان کے ہدف تک فوراً پہنچ کر لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہتا۔ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ راحت نے وہی کہا جو وہ خود کہنا چاہتا ہے۔راحت کے پاس ایسا سلیقہ اور ہنر ہے کہ وہ عوام کا سینہ چیر کر اس کے جذبات نکال لاتا ہے اور انھیں لفظی پیراہن میں لپیٹ کر پیش کر دیتاہے۔ملاحظہ فرمائیں ؏
——
کچھ اور کام جیسے اسے آتا ہی نہیں
مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے
——
میں من کی بات بہت من لگا کر سنتا ہوں
یہ تو نہیں، تیرا اشتہار بولتا ہے
——
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
——
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کر لوٹ آیا
——
ایسا بے باک، حق گو، صداقت کا سر عام اعلان کرنے والا، ارباب حل و عقد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے والا، سلاسل کی جھنکار اور قید و بند کی دھمکیوں سے بے پرواہ، ہتھیلی پر جان رکھے، سر پر کفن باندھے، وہ شیر دم پورے دم خم کے ساتھ ظلم و جبر کو واشگاف کرتا رہا ملاحظہ فرمائیں ؏
——
تری زبان کترنا بہت ضروری ہے
تجھے مرض ہے کہ تو بار بار بولتا ہے
——
ہندوستان کی مٹی کو لے کر راحت کی پوری غزل ان کے تیور کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔بلا خوف وخطر اتنی بڑی بات عوام کے مجمع میں کہنا معمولی بات نہیں۔ انھوں نے نہ فقط زبان سے یہ شعر ادا کئے بلکہ کرسی نشینوں کو راست مخاطب بھی کیا۔نہ جانے کتنی بے باکی لے کر پیدا ہوا تھا یہ معمولی سا نظر آنے والا انسان!! آج بھی اہل ذوق دم بخود ہیں ؏
——
اگر خلاف ہیں،ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
——
مندرجہ بالا اشعار سے ایک بات تو عیاں ہے کہ انھوں نے سہل ممتنع میں شعر ضرور کہے مگر جن الفاظ کو وہ بروئے کار لائے ان کی اپنی الگ دنیا ہے۔الفاظ کو اس طرح پرویا ہے کہ ہر لفظ اپنی ذمہ داری نبھاتا نظر آ رہا ہے۔ایسا لگتا ہے ہر ہر لفظ حکومت کر رہا ہے۔ دھواں، آسمان، زد، مسند، ذاتی، باپ وغیرہ اس طرح استعمال کئے کہ تیر و نشتر کی ساری چبھن ان کے اندر سما گئی۔اسی طرح ’تھوڑی ہے‘ مثلاً جان تھوڑی ہے، آسمان تھوڑی ہے، بالکل عامیانہ اور مقامی زبان میں استعمال ہونے والا فقرہ ہے مگر یہ راحت کا فن ہے جس نے کلام میں اس فقرے کی حکمرانی ثابت کر دی۔
——
یہ بھی پڑھیں : اس کو ہے دو جہان کی راحت ملی ہوئی
——
اسی طرح کرائے دار، ہتھیلی پر جان، کسی کے باپ کا ہندوستان، ان کے استعمال سے کلام میں زور اور اثر پیدا ہوا وہ بے مثل ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے گویا الفاظ ان کی ادائیگی کے غلام ہیں۔ یہ سلیقہ، یہ ہنر راحت کا خاصّہ ہیں۔ایک شعر ملاحظہ ہو ؏
——
چاروں ہیں میری جان کے دشمن بنے ہوئے
انجم ، ندا ، امیر قزلباش ، بمبئی
——
مصرعہ ثانی میں فقط چار لفظ استعمال کئے گئے ہیں مگر ان میں ہر لفظ کا اپنا مکمل وجود ہے۔ان سے راحت کی ذاتی زندگی، دوستانہ مراسم، رقابت اور بود و باش سب کچھ نہاں نہیں بلکہ عیاں ہو گیا ہے۔ بظاہر یہ سادہ سی زبان میں کہے گئے شعر اپنے اندر ترسیل کی پوری قوت رکھتے ہیں۔ان کے اشعار کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کو پڑھنے کے ساتھ ہی سمجھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔یہ سمجھنا ان کے اشعار کا نہیں بلکہ اپنے گردو پیش کا، اپنے ماضی، اپنے حال، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کا ہوتا ہے۔مثلاً ذیل کا شعر دیکھیں ؏
——
رکھ دئے جائیں گے نیزے لفظ اور ہونٹوں کے بیچ
ظل سبحانی کے احکامات جاری ہو گئے
——
نیزے کا لفظ واقعہ کربلا کی سفاکی اور الم ناکی کی نشاندہی کرتا ہے تو لفظ اور ہونٹوں کے درمیان نیزے کا رکھ دیا جانا یعنی اظہار کی کی آزادی پر قدغن، ظل سبحانی یعنی حکمران اور اس کی رعایاگویا جمہوریت کی پامالی۔اس طرح ایک ہی شعر میں صدیوں کی داستان پروتے ہوئے زمانہ حال کے مزاج کی تصویر کشی کر دی۔ہر شخص نے اپنی بساط بھر اس شعر کو سمجھااور لہجے کی کاٹ کو محسوس کیا۔ اس طرح راحت نے الفاظ کا استعمال یوں کیا گویا الفاظ فقط معنی نہیں رکھتے بلکہ ان کے دانت ہیں جو ظالم کو لپک کر کاٹ لیتے ہیں، ان کے ہاتھ ہیں جو جابر کا گریبان چاک کر ڈالتے ہیں یا ان کے پاؤں ہیں جو رعونت کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔
راحت نے جب اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تو اردو شاعری کا ترقی پسندی کا رجحان ختم ہو چکا تھا اور ایک نیا رجحان جدیدیت کے نام سے پنپ رہاتھا۔راحت نے اسی کا دامن تھاما مگر وہ اس سے متأثر نہ ہو سکے۔انسانی کرب اور ان کے اپنے احساسات درون خانہ پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ان کے ذاتی تجربات اور بنیادی صداقتیں باہر نکلنے کو مچل رہے تھے۔وہ اپنے جذبات دوسروں تک پہنچا دینا چاہتے تھے۔وہ معاشرے سے پوری ذہنی ہم آہنگی رکھتے تھے۔آزادی کے بعد مسلمان جن آزمایشوں سے دوچار ہوئے، راحت انھیں نظر انداز نہ کر سکے۔ لہٰذا انھوں نے سماج کو در پیش مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ ایک اور خاص بات کہ انھوں نے مسائل میں اپنی شاعری کو الجھایا نہیں بلکہ الجھے ہوئے مسائل اور ان کے حل کو شعر کا خوبصورت پیراہن عطا کر کے سادہ اور آسان طریقے سے لوگوں کے درمیان پیش کر دیا۔اسی لئے ان کا لہجہ الگ نظر آتا ہے ؏
——
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹ پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیب بہت ساری رکھو
——
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
——
ستارو آؤ میری راہ میں بکھر جاؤ
یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں
——
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دئے
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے
——
مزاحمتی صوت و آہنگ کے ساتھ ساتھ راحت کے یہاں رومانی جذبات، نازک احساس و لطیف خیالات بھی نظر آئیں گے۔ ان کے کلام میں تخیل و ادراک کی تازہ کاری ہے تو لفظیات و استعارات کی چاشنی بھی۔عشق و رومان، شیفتگی فریفتگی اور والہانہ پن، حسن کی جلوہ سامانیاں، محبوب کا روٹھنا منانا سب کچھ ان کے کلام میں مل جائے گامگر ان کی انفرادیت کے ہمراہ ؏
——
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب
جس دن سے تم روٹھیں، مجھ سے روٹھے روٹھےہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور ویور سب
آخر کس دن ڈوبوں گا میں فکریں کرتے ہیں
دریا وریا، کشتی وشتی، لنگر ونگر سب
عشق وشق کے سارے نسخے مجھ سیکھتے ہیں
ساگر واگر، منظر ونظر، جوہر ووہر سب
تلسی نے جو لکھا اب کچھ بدلا بدلا ہے
راون واون، لنکا ونکا، بندر وندر سب
چمن ِ دکھ کے باسی ہیں، دردِ شہر کے بانی ہیں
یہ محسن وحسن، غالب والب، ساگر واگر سب
——
غرض کہ راحت کے یہاں غزل کی روایت کی پاسداری برقرار ہے۔غزل کا بنیادی موضوع حسن و عشق وہاں پوری شدت سے موجود ہے مگر راحت کی جودت طبع کا اس میں بھر پور دخل ہے۔ معنی خیزی اور تہہ داری بھی ان کے اشعار کا جزو بنتی ہے۔اخلاقی بصیرت اور اعلیٰ قدریں تواتر سے ان کے اشعار میں جگہ پاتی ہیں۔ ان سب کو انھوں نے پوری فنّی مہارت کے ساتھ برتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : پسند آتا نہیں کچھ بھی مدینہ کے سوا مجھ کو
——
اشعار میں رعایت لفظی، استعارے، محاوروں کا بر محل استعمال، بظاہر سادہ الفاظ مگر وسعت معنی لئے ہوئے، غزل میں مختلف النوع مضامین کا پرونا اور ان سب کے دوران اپنی انفرادیت قائم رکھنا، یہی ان کا طرہئ امتیاز ہے جس کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص سبک شعرکے خود ہی بانی ہیں اور شائد خاتم بھی ؏
——
لے تو آئے ہو شاعری بازار میں راحت میاں
کیا ضروری ہے کہ لہجے کو بھی بازاری رکھو
——
میری قیمت کون دے سکتا ہے اس بازار میں
تم زلیخا ہو تمھیں قیمت لگانی چاہئے
——
یہیں حسین بھی گذرے ہیں، یزید بھی تھا
ہزار رنگ میں ڈوبی ہوئی زمین ہوں میں
——
منتخب اشعار
——
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
——
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
——
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
——
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
——
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
——
منتخب کلام
——
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
ایک دیوانہ مسافر ہے مری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے
اپنی تعبیر کے چکر میں مرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
——
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے
رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ
ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے
میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اک پتھر تھا
تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
——
یہ بھی پڑھیں : زائروپاسِ ادب رکھو ہوس جانے دو
——
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے
ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے
آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے
میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے
——
اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے
لہو لہان پڑا تھا زمیں پر اک سورج
پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے
زمیں پر آ گئے آنکھوں سے ٹوٹ کر آنسو
بری خبر ہے فرشتے خطائیں کرنے لگے
جھلس رہے ہیں یہاں چھاؤں بانٹنے والے
وہ دھوپ ہے کہ شجر التجائیں کرنے لگے
عجیب رنگ تھا مجلس کا خوب محفل تھی
سفید پوش اٹھے کائیں کائیں کرنے لگے
——
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں
کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری رکھو
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن
دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو
لے تو آئے شاعری بازار میں راحتؔ میاں
کیا ضروری ہے کہ لہجے کو بھی بازاری رکھو
——
اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آ گئے
کتنے شریف لوگ تھے سب کھل کے آ گئے
سورج سے جنگ جیتنے نکلے تھے بےوقوف
سارے سپاہی موم کے تھے گھل کے آ گئے
مسجد میں دور دور کوئی دوسرا نہ تھا
ہم آج اپنے آپ سے مل جل کے آ گئے
نیندوں سے جنگ ہوتی رہے گی تمام عمر
آنکھوں میں بند خواب اگر کھل کے آ گئے
سورج نے اپنی شکل بھی دیکھی تھی پہلی بار
آئینے کو مزے بھی تقابل کے آ گئے
انجانے سائے پھرنے لگے ہیں ادھر ادھر
موسم ہمارے شہر میں کابل کے آ گئے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔