بوئے طیبہ جو سونگھتی ہو گی

خلد کی روح جھومتی ہو گی

ان کی تابش کو چوم لے بڑھ کر

دور سے برق سوچتی ہو گی

ریگ طیبہ سے روشنی کے لیے

چاندنی ہاتھ جوڑتی ہو گی

ان کھجوروں کی ڈالیاں چھو کر

باد رحمت بھی جھومتی ہو گی

کتنی خوش بخت ہوگی ارض حرم

ان کے قدموں کو چومتی ہو گی

فخر اعمال حشر میں بیکار

ہر نظر ان کو ڈھونڈھتی ہو گی

ہوں تو عاصی عزیز وہ ہیں مرے

مجھ سے جنت کو دوستی ہو گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]